احساس کے ٹھہرے پانی میں تو کتنے کنکر پھینک چکا
یا تیرِ نظر یا حرفِ ملامت کے پتھر
لیکن تو بس دیکھ چکا ہے اک معمولی سی ہلچل
اب یا تو تو بس روئے جا
یا پھر خون بہا دے خواہش کا
یا پھر ہاتھ اُٹھا اور آہِ رسا سے
ہر پتھر پانی کردے
احساس کے ٹھہرے پانی کو
اک آن میں طوفانی کر دے
والد گرامی جناب...
نظریں کیوں مرکوز ہیں خالی زینے پر
آخر کچھ تو پیش آنا تھا رستے پر
خالی آنکھیں، اندھے رستے ، سہمی رات
جاتے برس کی دھول جمی ہے چہرے پر
کتنے لمحے گھات لگائے بیٹھے ہیں
کتنے چہرے بیت چکے آئینے پر
گذرے لمحوں کی برکت سے محرومی
اور شکن اک ڈال گئی ہے ماتھے پر
آج کوئی تہمت بھی نہیں منزل بھی نہیں...
ایک لمحے کو ٹھہر کر سوچیں
کھو گئی ہے کہاں سحر سوچیں
کن علاقوں سے ہو کے آتی ہیں
یہ ہوائیں ذرا شجر سوچیں
ہاتھ تھامے گذشتہ لمحوں کا
گھومتی ہیں نگر نگر سوچیں
سرد لہجوں کے برف زاروں پر
منجمد ہیں تمام تر سوچیں
کوئی نزدیک آتا جاتا ہے
ہوتی جاتیں ہیں معتبر سوچیں
ایک لمحے کی بھول ہوتی ہے...
دیارِ دل سے کنارِ لب تک تمام منظر ہی معتبر تھا
گلی گلی میں تھی سچ کی خوشبو، ڈگر ڈگر پر وفا کا پہرا
میں کیسے بھولوں سمے سنہرا
تمام لفظوں میں ربطِ معنی
تمام رنگوں میں اک کہانی
فلک کے لہجے میں استقامت
شفق کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ
سحرکی پلکوں کی چلمنوں سے
محبتوں کی ہزاروں کرنیں
زمینِ دل پر...
قرآن کے آئینے میں ہستی کے قرینے
تاحد نظر پھیلے ہیں انمول خزینے
ہیں مثل ستاروں کے مری بزم کے ساتھی
اصحاب کے بارے میں یہ فرمایا نبی نے
ہیں آپ کے ہاتھوں ہی سے ترشے ہوئے ہیرے
اسلام کے دامن میں یہ تابندہ نگینے
بعد ان کی محبت کے سفر صرف تھکن ہے
منزل کوئی پائے گا نہ پائی ہے کسی نے
والد گرامی...
استاذ گرامی جناب الف عین صاحب ۔۔۔ میں تو اپنی کم علمی اور کج فہمی کے باعث کوئی عروضی غلطی ڈھونڈنے میں ناکام رہا ۔۔۔۔! شاید دو مصرعوں میں اور کی جو واؤ حذف کی گئی ہے وہ قابلِ گرفت ہو ۔۔۔۔! واللہ اعلم !
جناب نام نہاد ’’ روشن خیالوں ‘‘ کو اگر اللہ حقیقی بصیرت سے نواز دے تو پھر یہ ملک ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔! کیونکہ زیادہ روشنی میں بھی انسان اندھا ہو جاتا ہے ۔۔۔ یہ قانونِ فطرت ہے ۔۔۔!
میری الفتوں کی ابتدا بھی تم ہو
میری چاہتوں کی انتہا بھی تم ہو
(متلاشی)
یہ کونسی بحر ہے ۔۔۔۔ اگر یہ بحر میں نہ ہو تو اسے کیسے قریب ترین بحر میں ڈھالا جا سکتا ہے ۔۔۔ برائے مہربانی جواب دے کے ممنون فرمائیں شکریہ۔۔۔۔!