کبھی سوچتا ہوں گُریز کیوں، اُسے صاف صاف بتا ہی دُوں
مجھے تجھ سے پیار تو اب بھی ہے، مگر اعتبار نہیں رہا
میں ہُوں عشق مجھ کو گُریز کیا، جو بھی دِل نے چاہا، وہ کردِیا
میں خیالِ سُود و زیاں سے تو، کبھی ہمکنار نہیں رہا
اختر عبدالرّزاق
جناب عمر اعظم صاحب تشکّر !
کیا خُوب غزل سے لُطف اندوز کیا صاحب آپ نے
اقبال اشعر کا شمار خُوب مربوط اور رواں اشعار کہنے والے شاعروں میں ہوتا ہے
اُن کی غزلیں بڑے شوق سے پڑھی جاتی ہیں
تشکّر ایک بار پھر سےانتخابِ خُوب شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں :)
مطلع میں 'یوں' لکھنا رہ گیا ہے، دیکھ لیں
مصرع...
یہ اجتماعی مطالعہ کی بات خوب کہی آپ نے !
آپ بِنا شکر کی چائے بنائیں، میں شمشادبھائی کو لئے، ثمر کے ساتھ پہنچتا ہوں
انٹرنیشنل ڈرائیو پر کسی ہوٹل میں سیشن رکھتے ہیں، ساؤتھ دلی دور تو نہیں نہ آپ سے ؟
بہت خوب ظفری صاحب !
تشکّر شیر کرنے پر
کہاں تلک، بام و در چراغاں کیے رکھو گے
بِچھڑنے والوں کو، بھول جاؤ! اُداس لوگو
بالا شعر میں شاید ٹائپو ہے، ' رہو گے ' ہے شاید
تشکّر ایک بار پھر سے شریک لطف کرنے پر
بہت خوش رہیں :)
خدا داد مملکت پاکستان کے سیاستدانوں میں سے بیشتر کے دل میں صحرائی راستہ رہا ہے
یا کم از کم یہی راستہ واپسی کے لئے استعمال کیا گیا ہے ، ضروری نہیں کہ ہر اک کو یہ راستہ راس بھی آیا ہو