اتفاق کرتا ہوں اکثر نکات سے محترم- کم مانوس بحروں سے مانوسیت بڑھانے کا طریقہ کوئی نہیں سوائے اس کے کہ ان بحروں میں لکھا جائے تاکہ عروض کا دامن سمٹتا ہی نہ چلا جائے- آپ کی رہنمائی میں محنت جاری رہے گی-
غزل پیش ہے- امید ہے آپ حضرات درگذر فرمائیں گے-
غزل
اپنا چہرہ چھپا لے نہیں جاتے ہیں اب
میرے گھر سے اجالے نہیں جاتے ہیں اب
علم کی تھیں عمارت میں ویرانیاں وہ
ذہنوں پر چھائے جالے نہیں جاتے ہیں اب
مانگتے ہیں سمجھ کر وہ اب اپنا حصہ
کچھ گھروں سے اُٹھالے نہیں جاتے ہیں اب
ہے سزاآدمی کو طرب...
شعیب بھائی شکریہ - ویسے اپنے دستخطی شعر میں آپ نے علامہ کی اصلاح کی ہے؟:doh:
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے
ہاں مگر پروانے شعر کو توڑ موڑ کر نہ لکھیں:-0
اب آپ کہیں گے بڑی غلط بین نگاہ پا ئی ہے-
شکریہ نیرنگ خیال-
حسیب صاحب- "بندہ پرور" اس شعر کے الٹ کام کرتا ہے-
"پالتے ہیں نہ پوستے ہیں ہمیں
پانی پی پی کے کوستے ہیں ہمیں"
اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ بندہ پرور ٹحہرے-
شکریہ شمشاد بھیا- پرانے زمانے میں طبیب ساتھ والے کمرے میں بیٹھی پردہ دار خواتین کی نبض نہیں بلکہ کلای سے باندھے دوپٹے کو چھو کر مریض کی حالت بتا دیتے تھے---بس آپ سمجھ لیں ہم اس سے ذرا کم رومانوی ماحول میں کام کرتے ہیں-