جب اک چراغ راہگزار کی کرن پڑے
ہونٹوں کی لو لطیف حجابوں سے چھن پڑے
شاخِ ابد سے جھڑتے زمانوں کا روپ ہیں
یہ لوگ جن کے رخ پہ گمانِ چمن پڑے
تنہا گلی، ترے مرے قدموں کی چاپ، رات
ہر سو وہ خامشی کہ نہ تابِ سخن پڑے
یہ کس دیار کی ٹھنڈی ہوا چلی
ہر موجہء خیال پہ صد ہا شکن پڑے
جب دل کی سل پہ بج اٹھے...
ایک دفعہ ایک چوہدری ریل کا سفر کر رہا تھا۔ ڈبے میں اس کا ایک ہمسفر بنگالی بابو تھا۔ چوہدری ہٹا کٹا، اور لمبا تڑنگا۔ جبکہ بنگالی دبلا پتلا، بنگالی نے اپنا صندوق اٹھا کر اوپر والی سیٹ رکھنے کوشش کررہا تھا، اس سے اٹھ نہیں رہا تھا۔ چوہدری اپنی جگہ سے اٹھا اور آرام سے صندوق اٹھا کر اوپر والی سیٹ پر...
ہمارے دور میں اختلافات اور جهگڑوﮞ کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ بغیر علم و تحقیق کے گہرے علمی مباحث کو سلجھانا چاہتے ہیں۔ اور شائد زبردستی سمجهانا چاہتے ہیں۔ وہ قرآن اور حدیث کو اس کے واقعات اور تناظر سے علیحدہ کر دیتے ہیں۔
ﺍﯾﮏ ﺩﻓعه ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮؓ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، پوچهنے پر جواب دیا ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ...
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا ۔۔۔۔۔ حدِ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا ۔۔۔۔ اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے، کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے...
ہمارے بہت ہی پیارے ان نام نہاد لبرل اور روشن خیال بھائیوں کے نام جو شاید کسی خاص طرح کےاسلاموفوبیے کا شکار ہو چکے ہیں۔ جن کے لئے دنیا کے ہر مسئلے کی جڑ اسلام ہے۔اور جو ہر اس آدمی سے نفرت کرتے ہیں جس کا اس مذہب کے ساتھ کہیں دور کا تعلق بھی ہو۔
ذرا سمجھئیے...
ہمارے لبرل بھائی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی مرعوب ہو چکے ہیں۔ مغرب کے خلاف ایک لفظ سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ وہ ابھی بھی ملالہ کے دفاع میں منطقیں تراش رہے ہیں۔
میرا نام شعیب اصغر ہے۔
میں انگریزی ادب میں ایم فل کا سٹوڈنٹ ہوں اور اس وقت گورنمنٹ رضویہ اسلامیہ پوسٹ گریجوایٹ کالج ہارون آباد میں بطور لیکچرر تدریس کے فرائض سر انجام دے رہا ہوں۔
ادب میرا شوق ہے اور خوش قسمتی سے پیشہ بھی۔
علم و فن کا شغف رکھنے والے دوستوں کو یہاں دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ امید ہے...