نتائج تلاش

  1. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

    یار تو کم تھے تماشائی بہت یوں نظر ہم نے بھی دوڑائی بہت کل پھر اک سیلاب آنے والا تھا کل یہ میری آنکھ بھر آئی بہت غور سے دیکھو ہجومِ شہر کو ہنس رہی تھی اس پہ تنہائی بہت کوئی تجھ سا بھی ستم گر اب ملے یوں تو مل جاتے ہیں ہرجائی بہت وصل کی حسرت تو اب بھی دل میں ہے گرچہ اس نے خوں میں نہلائی بہت...
  2. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح (مفاعلن (فعلاتن-مفعولن) مفاعلن فعلن)

    سفر کے مخمصے میں ہوں یہی تو مشکل ہے میں آدھے راستے میں ہوں یہی تو مشکل ہے کوئی نکالے مجھے جسم کی اسیری سے میں جس لبادے میں ہوں یہی تو مشکل ہے ارے یہ کیا ہر صورت ہی میری صورت ہے میں سب کے چہرے میں ہوں یہی تو مشکل ہے میں تیرا عکس ہوں باہر نکل کے آؤں گا ابھی جو آئینے میں ہوں یہی تو مشکل ہے تو...
  3. نوید ناظم

    ایک قطعہ۔۔۔!

    دل میں اک عکس دیکھتا ہوں میں وہ مگر سامنے نہیں رہتا میں فدا کس پہ ہو گیا ہوں پھر وہ اگر سامنے نہیں رہتا
  4. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح (فعولن فعولن فعولن فعولن)

    کوئی جال ہے جو بچھایا گیا ہے پرندوں کو رسماً اڑایا گیا ہے بڑی دور سے چل کے آیا تھا وہ بھی سرِ بزم جس کو اٹھایا گیا ہے ہمیں آرزو تھی کہ دیکھیں خدا کو مگر آئینہ سا دکھایا گیا ہے کوئی حق پرست آج سولی چڑھے گا جو پھر دار کو یوں سجایا گیا ہے یہ آوازِ حق ہے یہ اٹھ کر رہے گی اس آواز کو کب دبایا گیا...
  5. نوید ناظم

    عاجزی (اختصاریہ)

    عاجزی کا مطلب خود کو حقیر جاننا نہیں ہے بلکہ عاجزی کا مطلب ہے کہ انسان کسی دوسرے کو بھی حقیر نہ جانے...ایک شخص کہتا ہے جی بس ہم کیا ہیں' اللہ کا کرم ہے کہ اس نے یہ چھوٹا سا گھر دے دیا لیکن حقیقت میں وہ گھر چھوٹا ہوتا ہے اور نہ ہی اللہ کا کرم...بلکہ اس نے خود رشوت کا مال لے کر لوگوں کا حق غصب کر...
  6. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح ( فعولن فعولن فعولن فعولن)

    دیا آخری بھی بجھا کر گئی ہے ہوا دیکھ لو اب یہ کیا کر گئی ہے کہاں جا کے ڈھونڈیں ہم اس زندگی کو سنو کیا کسی کو بتا کر گئی ہے؟ ملی ہے جو اک لاش یوں دن نکلتے شبِ ہجر بھی حق ادا کر گئی ہے مرے گھر بھی آئی تھی کل یہ اداسی لو پھر کیا مجھے بھی رُلا کر گئی ہے ستم گر کو میں نے ستم گر کہا تھا یہی بات اس...
  7. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح ( فاعلاتن مفاعلن فعلن)

    بس مرے یار کم نہیں ہوتے دل کے آزار کم نہیں ہوتے ہم کو سایہ نہ مل سکا یاں پر ورنہ اشجار کم نہیں ہوتے یہ بڑھاتے ہیں اور مرے غم کو کیوں یہ غمخوار کم نہیں ہوتے دب کے رہ جاتے ہیں مرے کندھے دکھ کے انبار کم نہیں ہوتے جھوٹ لکھا ہے جھوٹ چھاپا ہے پھر بھی اخبار کم نہیں ہوتے تم نوید ان کو چھیڑ کر دیکھو...
  8. نوید ناظم

    گدڑی اندر لعل۔۔۔۔

    گدڑی اندر لعل جو آوے چپ چپیتے رکھ یار دی راہ اے عرش معلّیٰ بن گلی دا ککھ سوں جا بیلی مٹھی نِندر تینوں کاہدی فکراں اسیں تے راتیں اٹھ اٹھ رونا ساڈی لگی اکھ اندرعشق مچ مچایا بھانبڑ بھوں بھوں کردے سارے اندر چانن ہویا پے گیا یار دا پکھ تینوں وصل وصال مبارک ساڈے کول فراق ناگ ہجر دا ڈنگدا...
  9. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح ( فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

    اب ملا ہے حکم تو تعمیل ہونی چاہیے از سرِ نو درد کی تشکیل ہونی چاہیے خوب ڈوبا ہے رقیب اُن کی نشیلی آنکھوں میں ڈوبنے کو دوست ایسی جھیل ہونی چاہیے درد ڈالو تو خوشی بن کر نکل آیا کرے اب کوئی اس طرح کی زنبیل ہونی چاہیے دیکھ کر ہم کو وہ کیوں جلاد سے کہتے ہیں'' قتل'' اس کی کچھ تفسیر کچھ تفصیل ہونی...
  10. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح (مفاعلاتن مفاعلاتن)

    ہمیں بھلانے سے کیا ملے گا نہ جاؤ جانے سے کیا ملے گا یہ خواب پھر جاگ جائیں گے دوست انہیں سلانے سے کیا ملے گا ستا لو ہم کو مگر یہ سوچو بھلا ستانے سے کیا ملے گا یہ دل کا گل جو مسل رہے ہو یوں گل کھلانے سے کیا ملے گا زمانے کے پیچھے ہم کو چھوڑا ارے زمانے سے کیا ملے گا میں گرتمہیں جوئے شِیر لا...
  11. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح (مفاعیلن مفاعیلن فعولن)

    سنیں یہ تو خدارا کرتے جائیں ستم ہم پر دوبارہ کرتے جائیں چلو دل آپ کے قابل نہیں ہے مگر اس سے گزارہ کرتے جائیں یہ طوفاں ہم پہ اب ہنستا بہت ہے اسے اب تو کنارہ کرتے جائیں چلو تم ہی بتا دو بے رخی کو بھلا کب تک گوارا کرتے جائیں ارے مانا ہمیں کافی نہیں ہے مگر پھر بھی اشارہ کرتے جائیں غم سے چلو ہم...
  12. نوید ناظم

    ڈھولا ہن تے مکھ پرتا۔

    ساڈے کولی بہہ کے ہسیا ساڈے نالی رہ کے وسیا بعدوں چپ چپیتا نسیا اسیں ویکھیا جاندے جا ڈھولا ہن تے مکھ پرتا اسیں پھڑ لئی تیری گل اسیں ہو گئے تیرے ول سانوں ہور نہ ایویں چھل کدی بُکّل ساڈی آ ڈھولا ہن تے مکھ پرتا لوکاں نام ترے پے جاپے سنے بھین بھراواں ماپے پر رہندے وچ سیاپے...
  13. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح ( فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

    کیا بتائیں اب کیا کرتے رہے عمر بھر ہم سے جفا کرتے رہے بس نہ سمجھے 'آدمی' کو ورنہ لوگ پتھروں کو بھی خدا کرتے رہے یہ اشارہ تھا کہ ان کو دیکھ کر ہم پرندوں کو رہا کرتے رہے اجنبی ہو کر رہے اک دوجے سے لوگ رشتوں کو انا کرتے رہے در مقفل ہی رہے ہم پر سبھی ہم صداؤں پہ صدا کرتے رہے بارہا ہم کو ملی تھی...
  14. نوید ناظم

    دوست۔

    دوست زندگی کا سرمایا ہوتے ہیں ' اگر مخلص ہوں. بہترین دوست وہ ہوتاہے جو بہتری کی راہ دکھائے...جو انسان کو اس کی خامیوں سے تنہائی میں آگاہ کرتا جائے اور جو محفلوں میں اس کا بھرم قائم رکھتا جائے . دوست کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ دوست کے خلاف بولتا ہے نہ سن کر خوش ہوتا ہے...دوست کی تکلیف کم و...
  15. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح (فاعلاتن مفاعلن فعلن)

    ہرگھڑی ہیں عذاب آنکھوں میں دُکھتے رہتے ہیں خواب آنکھوں میں دو پیالے بھرے بھرے وہ بھی ہم نے دیکھی شراب آنکھوں میں سرخ ڈورے کہاں سے آئے ہیں بھر لیے کیا گلاب آنکھوں میں؟ ہاں یہ پیاسے چُھپا کے رکھتے ہیں اک سمندر جناب آنکھوں میں کچھ تو ان کو قرار آئے گا تم جو اترو بے تاب آنکھوں میں اب تو منزل...
  16. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح (مفعول مفاعلن فعولن)

    اپنے کہ پرائے تھے کہاں ہیں؟ اس دل میں جو آئے تھے کہاں ہیں؟ وہ خواب جو ہم نے اس کی خاطر آنکھوں میں سجائے تھے کہاں ہیں؟ اب ساتھ میں صرف دھوپ کیوں ہے بادل بھی تو لائے تھے کہاں ہیں؟ ہم نے بھی تو کچھ شجر یہیں پر اےچھاؤں' لگائے تھے کہاں ہیں؟ مسجد سے نکل کے شیخ سیدھے میخانے میں آئے تھے کہاں ہیں؟...
  17. نوید ناظم

    نثر پارے۔

    دل جو کر سکتا ہے۔۔۔ دماغ وہ سوچ بھی نہیں سکتا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باریک بات۔۔۔۔۔ موٹی عقل کے لیے نہیں ہوتی! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آسانیاں تقسیم نہ کی جائیں۔۔۔۔۔ تو مشکلیں جمع ہو جاتی ہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محض عقل سے کام لینے والا۔۔۔۔۔ عقلمند نہیں ہوتا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل کی کھیتی۔۔۔۔۔ آنکھ کے پانی سے سیراب ہوتی...
  18. نوید ناظم

    ایک شعر۔ (فاعلاتن مفاعلن فعلن)

    تم' جو جلتے ہو میری منزل سے تم نے میرا سفر نہیں دیکھا !!
  19. نوید ناظم

    ایک نقطہ۔۔۔!!!

    اپنے اصل کی طرف رجوع کرنا ہی سیدھا راستہ ہے...منزل آگے کی طرف سفر نہیں ہے' بلکہ یہ سفر تو نقطہءِ آغاز کی طرف سفر ہے...عدم سے وجود کی کہانی اور ہے..... وجود سے عدم کی بات اور!!
  20. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح (فاعلاتن مفاعلن فعلن)

    میرے دکھ کی دوا نہیں کرتا کرنے کو یوں کیا نہیں کرتا یہ بھی کم عقل کی نشانی ہے بولتا ہے' سنا نہیں کرتا دیکھ صیاد کا ستم مجھ پر یہ قفس بھی کھُلا نہیں کرتا ڈال دے خود بھنور میں کشتی کو ایسے تو نا خدا نہیں کرتا خود مِلے ہے رقیب سے دیکھو میں تو اس کا بُرا نہیں کرتا ایک ہی عیب ہے...
Top