نتائج تلاش

  1. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح (فعولن فعولن فعولن فعولن)

    ارے دیکھیے ظلم ڈھانے لگے ہیں وہ دریا کو صحرا بنانے لگے ہیں کہیں یہ خبر سچ نہ نکلے خدایا سنا ہے وہ ہم کو بھلانے لگے ہیں بہاروں کو پھر سے خزاں کر رہے ہیں لو پھر سے وہی گُل کھلانے لگے ہیں بھلا کون آیا ہے اک بارجا کر کوئی ان کو روکے وہ جانے لگے ہیں نمک ہرگھڑی پاس ہوتا ہے جس کے اسے زخم پھر ہم...
  2. نوید ناظم

    اختصاریہ (6)

    دوسروں کے کام آنا ہی اپنے کام آتا ہے...کسی کے راستے سے ایک پتھر اٹھانے سے انسان نہ جانے خود کتنی ٹھوکروں سے بچ جاتا ہے ...اگر کوئی جانور پیاسا ملے ' اسے پانی پلا دیا جائے تو اسی بات پر انسان کے لیے میٹھے پانی کے چشمے جاری ہو سکتے ہیں...دیکھا گیا کہ کسی نے اگر کسی کی ظاہری پیاس بجھائی تو اسے...
  3. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    ٹھیک ہے' آپ چاہے عطا مت کہیں جی محبت کو لیکن سزا مت کہیں ہے بڑی اس میں لذت یقیں کیجئے اُس ادائے ستم کو جفا مت کہیں اُس نے سینے سے میرے نکالا ہے دل اِس محبت کو میری خطا مت کہیں جس نے کشتی ڈبو دی ہے خود دوستو ہو چلو نا خدا' نا خدا مت کہیں لیجئے جاتے ہیں بزم سے آپ کی دیکھیے اب تو ہم کو بُرا مت کہیں
  4. نوید ناظم

    اختصاریہ۔

    خلوص کبھی ناکام نہیں ہوتا کیونکہ خلوص حاصل کی تمنا سے آزاد ہے... یہ نوازنا اور بانٹنا پسند کرتا ہے...خواہش' ناکام ہو جاتی ہے کہ اس کی فطرت صرف حاصل کرنا ہے...یہ حصول کے اصول پر کاربند رہتی ہے...خلوص کو تقسیم کرنا پسند ہے اور خواہش کو جمع کرنا...خلوص انسان کو اخلاص کے درجے تک لے جاتا ہے اور خواہش...
  5. نوید ناظم

    پسند۔

    مختلف اجناس' مختلف پسند رکھتی ہیں. اس میں ایک بڑا عمل تو اپنے مزاج کا ہوتا ہے کہ گدھ مردار کو پسند کرتا ہے اور شاہین پرواز کو. شیر اور شِکرا' شکار کرنا پسند کرتے ہیں، الو اور چمگادڑ کو الٹا لٹکنا پسند ہے کہ یہی وہ اصناف ہیں جن کو '' مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے'' یہ تاریکیوں کو پسند کرتے...
  6. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    ہم تو یوں ہی ترے دام میں آ گئے بیٹھے بیٹھے بس الزام میں آ گئے جو مزے تیرا غم دے نہ پایا مجھے وہ بھی تلخیء ایام میں آ گئے میکدے میں بڑے رند تھے ٹھیک ہے نشے لیکن مرے جام میں آ گئے دل جگر تھام کے رکھے تھے اب تلک خیر اب یہ ترے کام میں آ گئے عشق کی بات تم کرتے تھے ہر گھڑی کیوں میاں جلد آرام میں...
  7. نوید ناظم

    انصاف

    یہ دورایک مشکل دور ہے جہاں دیکھیے پیسے کی دوڑ ہے.... اس دوڑ میں جہاں زندگی کے بہت سارے شعبے پیچھے رہ گئے وہیں پہ انصاف کا حصول بھی مشکل ہو گیا. اب سستا انصاف مہنگے وکیل کے بغیر نہیں ملتا. ہماری عدالتوں میں منصف زیادہ ہیں اورانصاف کم. انصاف کا شعبہ اصل میں بہت وسیع شعبہ ہے' انسان کی ساری زندگی...
  8. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح (فعولن فعولن فعولن فعولن)

    یہ سینے میں ہو کر ہمارا نہیں ہے لو دل پر بھی اپنا اجارہ نہیں ہے اگر میری مانو تو کر لو محبت بِنا اس کے بھائی گزارہ نہیں ہے تمہیں دیکھ لیں ہم ذرا مسکرا کے مگر تم کو اتنا گوارہ نہیں ہے تِرے کوچے کی خاک ہو جائیں لیکن بلند اس قدر اب ستارہ نہیں ہے جس انداز سے وہ ہمیں دیکھتے ہیں بھلا اس میں کوئی...
  9. نوید ناظم

    زندگی

    زندگی اُسے پسند کرتی ہے جو زندگی کو پسند کر لے۔۔۔۔ یہ بڑی نازک مزاج ہے' گلے اور شکوے کا بوجھ برداشت نہیں کرتی۔ لوگوں کو گلہ ہے کہ اولاد ہے اور خرچ پورا نہیں ہوتا لیکن جس کا خرچ پورا ہوتا ہے اسے گلہ ہے کہ اولاد نہیں۔۔۔۔ اپنے دکھ‘ دوسروں کے دکھ نظر نہیں آنے دیتے اور یوں ہر کوئی ہر کسی سے بیگانہ...
  10. نوید ناظم

    اعتبار۔

    اعتبار اس قوت کا نام ہے جو انسان کو دوسرے انسانوں کے متعلق بد گمانی سے بچاتی ہے۔ اعتبار کے دم سے بڑی بہاریں ہیں۔۔۔۔ جس کا بہار پہ اعتبار ہو اس کے گلشن میں پھول کھِل کر رہتے ہیں۔ اعتبار' انسان کو انتشار سے بچاتا ہے' اندرونی انتشار سے۔ یہ ایک میٹھے پانی کا چشمہ ہے جو اسے اندر سے سیراب کرتا رہتا...
  11. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح۔۔ ( فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    وہ مرے درد کی بھی دوا نا کرے اب یوں بھی ہو جہاں میں خدا نا کرے گھر کے دروازے تو بند ہیں دیر سے آو ملنے تو کوئی ملا نا کرے دل بڑا چپ ہے پر ایسا بھی اب نہیں تیرے کوچے سے گزرے' صدا نا کرے جو بھی چاہے ستم وہ روا رکھے پر ہم کو خود سے کبھی بھی جدا نا کرے وہ دے کوئی خلش جو جگر...
  12. نوید ناظم

    غزل (فاعلاتُ مفاعیل فعولن ) برائے اصلاح۔

    ہم نے رختِ سفر باندھ لیا ہے تجھ کو کس نے مگر باندھ لیا ہے اب نہ جائیں گے اٹھ کر یہاں سے ہم ہم نے ایک ہی در باندھ لیا ہے قید اس سے بڑی اور نہیں ہے تجھ کو دنیا نے گر باندھ لیا ہے مجھ کو بھی چھپا صیاد کہیں پر پھیل چکی خبر باندھ لیا ہے وہ ستارے بھی گردش میں لے آیا اور دیکھو قمر باندھ لیا ہے
  13. نوید ناظم

    نفرت۔

    نفرت ایک پاتال ہے جس میں انسان ایک بار گِر جائے تو گرتا چلا جاتا ہے۔ نفرت کی آگ انسان کا سینہ اور مستقبل جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ نفرت کرنے والا انسان زندگی میں سکون سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ شخص جسے لوگ اچھے نہ لگتے ہوں بھلا وہ لوگوں میں خوش کیسے رہ سکتا ہے۔ جو دل دعا دینا نہ جانتا ہو' وہ دل چَین...
  14. نوید ناظم

    غزل ۔مثمن سالم مقطوع: فاعلن فاعلن فاعلن فعلن

    ہم تڑپیں اور وہ کوئی دوا نہ کرے ایسا بھی ہو جہاں میں خدا نہ کرے گھر کے دروازے تو بند سے پڑے ہیں آو ملنے تو کوئی مِلا نہ کرے جو بھی چاہے ستم وہ روا رکھے پر ہم کو خود سے کبھی بھی جدا نہ کرے دل بڑا چپ ہے پر اتنا بھی نہیں جو تیرے کوچے سے گزرے' صدا نہ کرے وہ دے کوئی خلش جو جگر میں رہے چاہے اس کے...
  15. نوید ناظم

    مشکل وقت۔۔۔ (اختصاریہ)

    مشکل وقت اِس لیے آتا ہےکہ مشکل وقت کا سامنا کیا جائے...اس کو انٹرٹین کیا جائے ...کھلے دل کے ساتھ اس کا استقبال کیا جائے...یہ ہر کسی پہ کبھی نہ کبھی ضرور آتا ہے...اس کی کئی شکلیں ہیں' کچھ ظاہری ہیں' کچھ باطنی...مشکل وقت کا تعلق امیری یا غریبی سے نہیں ہے ...پیسہ ہونے کے باوجود انسان مشکلات کا شکار...
  16. نوید ناظم

    غزل۔

    دن ایسے بھی دکھائے جا سکتے ہیں جی ہاں وہ بھی بھلائے جا سکتے ہیں جس گلی سے ہم کو روکا گیا ہے اس گلی میں ہم پائے جا سکتے ہیں یہ دنیا کربلا ہے ہم جانتے ہیں ہم بھی خوں میں نہلائے جا سکتے ہیں وہ جو دیکھیں تو پھر جھوٹ ہے یہ کیوں جان و دل بچائے جا سکتے ہیں لو جی اب تو رقیب کے...
  17. نوید ناظم

    اختصاریہ

    جب تک انسان اندر سے لطیف نہ ہو جائے اِس کے لئے کائنات میں کہیں بھی کسی بھی شئے میں کوئی لطف موجود نہیں ہے...وہ رنگ جو ہم باہر دیکھتے ہیں وہ سارے رنگ' ہمارے رنگ ہیں...منظر حسین ہوتا ہے' اپنی نظر کے حسن سے ...ایک انسان کہتا ہے میں نے باغ میں پھول دیکھے جس کے ساتھ کانٹے ہی کانٹے تھے...دوسرا کہتا ہے...
  18. نوید ناظم

    بلاعنوان۔۔۔

    انسان نے اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے سائنس کا سہارا تو لے لیا مگر خود بے سہارا ہو کر رہ گیا ہے. اس کی زندگی میں آرام دہ اشیاء ہیں مگر آرام نہیں ہے. اس کے پاس سکون آور ادویات ہیں مگر سکون نہیں ہے..انسان کے اندر خلاء پیدا ہو چکے ہیں مگر نہ جانے یہ کن خلاوں کا سفر طے کرنا چاہتا ہے. خدا نہ...
  19. نوید ناظم

    برائے اصلاح ( فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن )

    جی جی یہ کام بھی ہو جائے اچھا ہے دل کو آرام بھی ہو جائے اچھا ہے یوں تو ساقی کی نظر بھی ہمیں کافی مگر اک جام بھی ہو جائے اچھا ہے کوئی اک آدھ غزل یوں ہی کسی دن جو تِرے نام بھی ہو جائے اچھا ہے شہرہ اچھائی کا کیا کرنا ہے اے دل بس تُو بدنام بھی ہو جائے اچھا ہے یارِ من دیکھ تو لے عشق کو کر کے یہ...
  20. نوید ناظم

    اہلِ ذوق کی نذر۔۔۔

    آپ تو نازک بدن ہیں آپ تو ایسا نہ کیجئے لوگ پتھر بن چکے ہیں خود کو آئینہ نہ کیجئے (نوید ناظم)
Top