اُسے کہنا پلکوں پہ نہ ٹانکے خواب کی جھالر
سمندر کے کنارے گھر بنا کر کچھ نہیں ملتا
یہ اچھا ہے کہ آپس کے بھرم نہ ٹوٹنے پائیں
کبھی کبھی دوستوں کو آزما کے کچھ نہیں ملتا
لوگ کیوں بس کے اُجڑ تے ہیں،کبھی سوچا ہے
کس لیئے جاں سے گذرتے ہیں،کبھی سوچا ہے
جو نظر آتے ہیں آئینہ سی پوشاکوں میں
وہ بھی مٹّی میں اُترتے ہیں،کبھی سوچا ہے؟
اک بار جو بچھڑے وہ دوبارہ نہیں ملتا
مل جائے کوئی شخص تو سارا نہیں ملتا
اس کی بھی نکل آتی ہے اظہار کی صورت
جس شخص کو لفظوں کا سہارا نہیں ملتا
پھر ڈوبنا یہ بات بہت سوچ لو پہلے
ہر لاش کو دریا کا کنارا نہیں ملتا
یہ سوچ کے دل پھر سے ہے آمادہء الفت
ہر بار محبت میں خسارہ نہیں ملتا
کیوں...