دل کو غموں کے بوجھ سے کیسے رہا کریں
اوروں سے حالِ زار کا کیا تذکرہ کریں
ٹھہری ہوئی حیات تحرک کی منتظر
راہیں ہوں سامنے تو کوئی فیصلہ کریں
دل دے چکے ہیں عہدِ وفا اور کیا نبھائیں
پتھر کو بت بنائیں، بشر کو خدا کریں
بنتے ہیں قہقہے بھی اداسی کے ترجمان
آتا نہیں یقین تو خود تجربہ کریں
ایسا نہ ہو کہ...