نیم خوابیدہ فضاء
حُسنِ ماہ تاب، ندی میں رقصاں
نازک اندام، پری چہرہ، پرستاں کا مکیں
جس کی خوشبو، سحر انگیز، جنوں خیز، مجھے
مجھ سے بیگانہ و مستانہ کیے جاتی ہے
اور میری سُنبل و ریحاں سے مہکتی پوشاک
یوں سراپا مجھے مخمور کیے جاتی ہے
گویا پوشاک نہیں،
اُس کا بدن ہو جیسے
جس کی آغوش میں، گل پوش بہکتے...
میں حد توڑوں
اور
حد مجھ کو، کسی اور جہت سے پھر جکڑے
میں
اُس جکڑن کو، پھر جڑ سے
جب کھینچ کے باہر لا پٹخوں
وہ بے حد، بے بس پھر کر دے
وِش میری نس نس میں بھر دے
میں
سرحد پار نہ جا پاؤں
جہاں،مجھ کو مجھ سے ملنا ہے
جہاں، چاک جگر کا سِلنا ہے
(فاطمہ)
میں کون ہوں
اک احساس فقط
احساس نمو پاتے پاتے
اُس بند گلی تک جا پہنچے
جہاں وجد، وجود، ثبات.... نفی
جہاں حُسن، جمال، کمال.... نفی
جہاں سوز، فراق، وصال.... نفی
جہاں ہڈ بیتی کا حال.... نفی
جہاں، جبر...... جزا
جہاں، فکر..... سزا
احساس...... عطا؟
ہر پل راضی، ہر آن خفا
احساس بشر، احساس خدا
جہاں...