تمام مصرعے فاعلاتن فعلاتن مفعولن پر
ہفت افلاک سے بھی آزردہ ہوں
اپنی اس خاک سے بھی آزردہ ہوں
مجھ کو رُسوا، جو زمانے میں کردے
چشمِ نمناک سے بھی آزردہ ہوں
زخم پوشاک ہوئے جاتے ہیں اور
اس ہی پوشاک سے بھی آزردہ ہوں
خواہشِ بادِ بریں بھی ہے مجھے
خس و خاشاک سے بھی آزردہ ہوں
جنوں خیز نہیں دل بھی میرا
اُس...