تمام حاضرین و ناظرین کو السلام وعلیکم،
جیسا کے استادِ محترم الف عین فرماتے ہیں کہ "اصلاحِ سخن میں غزل لگی ہے تو ہاتھ تو صاف کرنا ہی پڑے گا"
مجموعی طور پر غزل بہت اچھی ہے، تمام مصارع رواں اور اشعار خوب ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جب اس پائے کی غزل ہو تو اس میں ذرا بھی نقص کیوں رہے۔
ہم کتابِ عشق کا تھے جزوِ لازم اس لیے
حوض سے نکلے تو ہم نے حاشیے میں کاٹ دی
شعر بہت اچھا ہے اور آپ اس کی وضاحت بھی فرما چکے ہیں گو کہ ضرورت نہیں تھی۔ میری تکلیف یہ ہے کہ دونوں مصارع میں "ہم " کی تکرار کھٹک رہی ہے، اگر بہتری کی کوئی راہ ممکن ہو تو دیکھ لیں ورنہ بہت لوگ ہیں جن کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے۔
تو جدا جس پل ہوا تھا، ہم اسی میں قید ہیں
زندگی کی ہر گھڑی اس ثانیے میں کاٹ دی
مصرعہ اولٰی میں آپ تخصیص واضح کر چکے ہیں پہلے "جس" اور پھر، "اسی" میری ناقص عقل کے مطابق مصرعہِ ثانی میں"اس " کی ضرورت نہیں رہتی، نیز یہ تنافر کا باعث بھی محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کو "اک" سے تبدیل کردیا جائے تو بہتر ہوگا۔ محض ایک تجویز
اس سے اپنا ہجر کا رشتہ رہا عاؔطف سدا
اور ہم نے بس اسی اک واسطے میں کاٹ دی
یہاں مصرعہِ ثانی میں "اور" کا استعمال کچھ معیوب محسوس ہو رہا ہے لیکن وضاحت سے معذور ہوں کوئی ممکن صورت ہو تو دیکھ لیں۔
باقی تمام غزل پر بہت داد قبول کیجیئے