غزل
اکبؔر الہٰ آبادی
ہستیٔ حق کے معانی جو مِرا دِل سمجھا
اپنی ہستی کو اِک اندیشۂ باطِل سمجھا
وہ شناوَر ہُوں جو ہر مَوج کو ساحِل سمجھا
وہ مُسافِر ہُوں، جو ہر گام کو منزِل سمجھا
حضْرتِ دِل کو چڑھا آیا مَیں، بُتخانے میں
اُن کے انداز سے، اُن کو اِسی قابِل سمجھا
ہُوئی دُنیا میں مِرے جوشِ...
خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے اِس نظم کو اِلہامی کہا ہے اور یہ کہ اِس نظم کے ہر شعر میں یہ کمال ہے کہ اگر اس کو ایک کتاب کے شروع میں لکھ دیا جائے اور پھر اس کی تشریح و تفسیر شروع ہو تو وہ کتاب صرف ایک ہی شعر کی شرح میں بہت ضخیم جلد بن جائے گی۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اشعار کب کہے گئے البتہ...
جنابِ اقبالؔ نے یہ پوچھا کہ بے خودی کی یہ مشق کیسی
کہا کسی نے حضورِ والا سبب جو اِس کا ہے مجھ سے سنیے
خودی کو اِتنا بڑھا دیا تھا کہ بعض صاحب خدا بنے تھے
کتاب اللہ کے اِن ترجموں سے دین کیا ابھرے
مترجم جب کہ خود اک حاشیہ ہو متنِ دنیا کا
نہ ہو گا دین کا جب تک کہ زندہ ترجمہ اکبرؔ
عمل سے غیر ممکن ہے کہ ٹپکے شوق عقبیٰ کا
ادبارِ بے خودی سے جو سازش میں مست ہے
اقبالؔ اب خودی کی سفارش میں مست ہے
کارِ جہاں خدا کے ارادوں کا ہے مطیع
ہر ایک لیکن اپنی ہی خواہش میں مست ہے
اقبالؔ اپنے بس کا نہیں کیا کرے کوئی
اکبرؔ فقط دعا میں‘ گزارش میں مست ہے
غزل
اکبرؔ الہٰ آبادی
بَوسۂ زُلفِ سِیاہ فام مِلے گا کہ نہیں
دِل کا سودا ہے، مُجھے دام مِلے گا کہ نہیں
خط میں کیا لکِھّا ہے، قاصد کو خبر کیا اِس کی
پُوچھتا ہے، مُجھے اِنعام مِلے گا کہ نہیں
مَیں تِری مست نَظر کا ہُوں دُعاگو، ساقی
صدقہ آنکھوں کا کوئی جام مِلے گا کہ نہیں
قبر پر فاتحہ پڑھنے کو نہ...
غزل
اے خوفِ مرگ ! دِل میں جو اِنساں کے تُو رَہے
پِھر کُچھ ہَوس رہے، نہ کوئی آرزُو رَہے
فِتنہ رَہے، فساد رَہے، گُفتگُو رَہے
منظُور سب مجھے، جو مِرے گھر میں تُو رَہے
زُلفیں ہٹانی چہرۂ رنگیں سے کیا ضرُور
بہتر ہے مُشک کی گُلِ عارض میں بُو رَہے
اب تک تِرے سبب سے رَہے ہم بَلا نصیب
اب تابہ حشر گور...
غزل
دِلِ زخمی سےخُوں، اے ہمنشِیں! کُچھ کم نہیں نِکلا
تڑپنا تھا، مگر قسمت میں لِکھّا دَم نہیں نِکلا
ہمیشہ زخمِ دِل پر ، زہر ہی چھڑکا خیالوں نے !
کبھی اِن ہمدموں کی جیب سے مرہم نہیں نِکلا
ہمارا بھی کوئی ہمدرد ہے، اِس وقت دُنیا میں
پُکارا ہر طرف، مُنہ سے کسی کی ہم نہیں نِکلا
تجسُّس کی نظر...
غزل
مُنہ تِرا دیکھ کے فق رنگِ گُلستاں ہوجائے
دیکھ کر زُلف کو سُنبل بھی پریشاں ہوجائے
یادِ قامت میں جو میں نالہ و فریاد کرُوں
پیشتر حشر سے، یاں حشر کا ساماں ہوجائے
جلوۂ مصحفِ رُخسار جو آجائے نظر !
حسرتِ بوسہ میں کافر بھی مُسلماں ہوجائے
آپ کے فیضِ قدم سے ہو بَیاباں گُلزار !
جائیے باغ تو، وہ...
سر میں شوق کا سودا دیکھا
دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا
جو کُچھ دیکھا ، اچّھا دیکھا
کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا
کُچھ چہروں پر مَردی دیکھی
کُچھ چہروں پر زردی دیکھی
اچّھی خاصی سردی دیکھی
دِل نے، جو حالت کردی دیکھی
ڈالی میں نارنگی دیکھی
محفل میں سارنگی دیکھی
بے رنگی، با رنگی دیکھی
دہر کی رنگا رنگی...
ہوگیا بدر ہلال اِس کا سبب روشن ہے
روز گھستا تھا تِرے در پہ جبیں تھوڑی سی
منزلِ گور میں کیا خاک مِلے گا آرام
خُو تڑپنے کی وہی، اور زمِیں تھوڑی سی
آپ کو غیر کی راحت کا مُبارک ہو خیال
خیر تکلیف اُٹھالیں گے ہَمِیں تھوڑی سی
اکبر الٰہ آبادی
اکبرالہٰ آبادی
غزل
پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی
یہ وفا کیسی تھی صاحب ، یہ مروّت کیسی
دوست احباب سے ہنس بول کے کٹ جائے گی رات
رندِ آزاد ہیں ، ہم کو شبِ فُرقت کیسی
جس حسِیں سے ہُوئی اُلفت وہی معشوق اپنا
عشق کِس چیز کو کہتے ہیں ، طبیعت کیسی
جس طرح ہوسکے دن زیست کے پورے کرلو
چار دن...
اکبرالہٰ آبادی
کہوں کِس سے قصۂ درد وغم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے، تِری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
تو ہزار کرتا لگاوٹیں، میں کبھی نہ آتا فریب میں
مجھے پہلے اِس کی خبر نہ تھی، تِرا دو ہی دن کا یہ پیار ہے
یہ نوِید اَوروں کو جا سُنا، ہم اسیرِ دام ہیں، اے صبا
ہمیں کیا چمن ہے جو رنگ...
ہلکی پُھلکی شاعری میں گہری وزنی باتیں اکبر الہ آبادی کا ہی خاصہ تھیں۔
ان کی شاعری لطیف اور خوب الفاظ میں کہیں چوٹ، کہیں مشاہدہ کی صورت ہی رہی،
جو اک آگ چڑھی دیگچی کی بھاپ کے طرح فضا میں گرمی اور بُو
بکھیرتی رہی تھی، اور حواسِ خمسہ خُوب رکھنے والوں کو کبھی گراں اور کبھی محبوب تھیں
ہم اگر غور...
دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی
ہر چند کہ ہوں ہوش میں، ہشیار نہیں ہوں
اس خانۂ ہستی سے گزر جاؤں گا بے لوث
سایہ ہوں فقط ، نقش بہ دیوار نہیں ہوں
وہ گُل ہوں، خزاں نے جسے برباد کیا ہے
الجھوں کسی دامن سے، میں وہ خار...
ہم کیوں یہ مبتلائے بے تابیِ نظر ہیں
تسکینِ دل کی یا رب وہ صورتیں کدھر ہیں
ذرّے جو گُل بنے تھے وہ بن گئے بگولے
جو زینتِ چمن تھے وہ خاکِ رہ گزر ہیں
دُنیا کی کیا حقیقت اور ہم سے کیا تعلق
وہ کیا ہے اک جھلک ہے ہم کیا ہیں اک نظر ہیں
ہم نے سُنے بہت کچھ قصّے جہانِ فانی
افسانہ گو غضب ہیں قصّے تو...
غزل
اکبرالٰہ آبادی
میری تقدیر موافق نہ تھی تدبیر کے ساتھ
کُھل گئی آنکھ نگہباں کی بھی، زنجیر کے ساتھ
کُھل گیا مصحفِ رخسارِ بُتانِ مغرب
ہو گئے شیخ بھی حاضر نئی تفسیر کے ساتھ
ناتوانی مِری دیکھی، تو مصوّر نے کہا
ڈر ہے، تم بھی کہیں کِھنچ آؤ نہ تصویر کے ساتھ
بعد سیّد کے، میں کالج کا کروں...
غزلِ اکبرالٰہ آبادی اے بُتو بہرِخُدا درپئے آزار نہ ہو
خیرراحت نہ سہی، زیست تو دشوار نہ ہو
یا رب ایسا کوئی بت خانہ عطا کر جس میں
ایسی گزرے کہ تصوّر بھی گنہگار نہ ہو
مُعترِض ہو نہ مِری عُزلت و خاموشی پر
کیا کروں جبکہ کوئی محرمِ اسرار نہ ہو
کیا وہ مستی، کہ دَمِ چند میں تکلیف شُمار
مست وہ ہے...
غزل
اکبرالٰہ آبادی
بُہت رہا ہے کبھی لطف یار ہم پر بھی
گزرچُکی ہے یہ فصلِ بہار ہم پر بھی
عروس دہر کو آیا تھا پیار ہم پر بھی
یہ بیسوا تھی کسی شب نِثار ہم پر بھی
بِٹھا چکا ہے زمانہ ہمیں بھی مسند پر
ہُوا کئے ہیں جواہر نِثار ہم پر بھی
عدو کوبھی جو بنایا ہے تم نےمحرمِ راز
تو فخْر کیا، جو ہُوا...
غزل
اکبرالہٰ آبادی
اُنہیں نِگاہ ہے اپنے جَمال ہی کی طرف
نظر اُٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف
توجّہ اپنی ہو کیا فنِ شاعری کی طرف
نظرہرایک کی جاتی ہےعیب ہی کی طرف
لِکھا ہُوا ہے جو رونا مرے مقدّر میں
خیال تک نہیں جاتا کبھی ہنسی کی طرف
تمہارا سایا بھی جو لوگ دیکھ لیتے ہیں
وہ آنکھ اٹھا کے نہیں...