[align=right:db5f0d4cf4] ماسی گُل بانو۔
اُس کے قدموں کی آواز بلکل غیر متوازن تھی، مگر اُس کے عدم توازن میں بھی بڑا توازن تھا۔آخر بے آہنگی کا تسلسل بھی تو ایک آہنگ رکھتا ہے۔سو اُس کے قدموں کی چاپ ہی سے سب سمجھ جاتے تھے کہ ماسی گُل بانو آرہی ہے۔گُل...
شہزادی
تحریر: حسینہ معین
میٹرن صاحبہ نگینہ شہاب کے ساتھ اس وقت کامن روم میں داخل ہوئیں جب حلوہ تقریباً دم پر تھا- شبو بڑے سلیقے سے ٹینس کی میز پر چائے کی پیالیاں لگا کر چائے انڈیل چکی تھی- افروز بڑی بوڑھیوں کی طرح لمبا سا جوڑا باندھے آلتی پالتی مارے دیگچی میں چمچہ چلا رہی تھی- نرگس اسٹو کی...
احمد ندیم قاسمی کی لازوال تحریر
عالاں
اماں ابھی دہی بلو رہی تھیں کہ وہ مٹی کا پیالہ لئے آ نکلی۔یہ دیکھ کر کہ ابھی مکھن ہی نہیں نکالا گیا تو لسسی کہاں سے ملے گی؟وہ شش و پنج میں پڑ گئی کہ واپس چلی جائے یا وہیں کھڑی رہے۔
”بیٹھ جاؤ عالاں ! " اماں نے کہا،ابھی دیتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیسی ہو؟
جی...
ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم نہ ہو سکا جس زمانے میں لائل پور کا ضلع نیا نیا آباد ہو رہا تھا پنجاب کے ہر قصبے سے مفلوک الحال لوگ زمین حاصل کرنے کے لئے اس نئی کالونی میں کھنچے چلے آ رہے تھے عرفِ عام میں لائل پور ۔جھنگ ۔سرگودھا وغیرہ کو ۔بار۔ کا عکاقہ کہا جاتا تھا ۔
اُس زمانے میں ماں جی کی...
افسانہ انخلائ از:۔ایم مبین
رات کا کون سا پہر تھا اندازہ لگانا مشکل ہوگیا ۔
فضا میں مسلسل دھماکےگونج رہےتھےاور اُن کی آوازوں سےکلیجہ پھٹا جارہا تھا ۔
گھر کےتمام افراد جاگ گئے، اُن کےچہروں پر خوف رقصاں تھا ۔ وہ اپنےاندر ہی اند رخوف سےسمٹےجارہےتھے۔
” لگتا ہےجنگ شروع ہوگئی ۔ “ بابا...
آشیانہ
خواجہ احمد عباس
آشيانہ مہندي آخر آدمي تھا، جو رات آشيانہ ميں لوٹا، رندھير اس رات کو گھر نہيں آيا تھا، وہ اکثر رات کو گھر نہيں آتا تھا، مہندر نے اندھيرے ميں ٹٹول کر بجلي کا بٹن دبايا ليکن روشني نہيں ہوئي شايد آج پھر فيوز اڑگيا تھا، آشيانہ ميں اندھيرا تھا مہندر نے کسي کو آواز دي...
بلديہ کا اجلاس زوروں پر تھا، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلاف معمول ايک ممبر بھي غير حاضر نہ تھا، بلديہ کے زير بحث مسئلہ يہ تھا کہ زنان بازاري کو شہر بدر کر دياجائے، کيوں کہ ان کا وجود انسانيت، شرافت اور تہذيب کے دامن پر بد نما داغ ہے۔
بلديہ کے ايک بھاري بھر کم رکن جو ملک و قوم کے سچے خير...
امتياز اور صغير کي شادي ہوئي۔ تو شہر بھر ميں دھوم مچ گئي، آتش بازيوں کا رواج باقي نہيں رہا تھا مگر دولہے کے باپ نے اس پراني عياشي پر بے دريغ روپيہ صرف کيا۔
جب صغير زيوروں سے لدے پھندے سفيد براق گھوڑے پر سوار تھا تو اس کے چاروں طرف انار چھوٹ رہے تھے، مہتابياں اپنے رنگ برنگ شعلے بکھير رہي تھيں،...
نظارہ
تارا مائي کي آنکھيں تاروں ايسي روشن ہيں اور وہ گرد وپيش کي ہر چيز کو حيرت سے تکتي ہے، دراصل تارا بائي کے چہرے پر آنکھيں ہي آنکھيں ہيں، وہ قحط کي سوکھي ماري لڑکي ہے جسے بيگم الماس خورشيد کے ہاں کام کرتے ہوئے صرف چند ماہ ہوئے ہيں اور وہ اپني مالکن کے شان دار فليٹ کے سازو سامان کو...
جب کبھي بيٹھے بٹھائے مجھے آپا کي ياد آتي ہے تو ميري آنکھوں کے آگے ايک چھوٹا سا بلوريں ديا آجاتا ہے جو مدھم ہوا سے جل رہا ہو۔
مجھے ياد ہے کہ ايک رات ہم سب چپ چاپ باورچي خانے ميں بيٹھے تھے، ميں آپا اور امي جان کہ چھوٹا بدو بھاگتا ہوا آيا ان دنوں بدو يہي چھ سات سال کا ہوگا، کہنے لگا امي جان ميں...