الف عین ،

  1. اویس رضا

    غزل بغرضِ اصلاح/ رند بے آبرو ہوجائیں گے میخانے میں

    استادِ محترم سر الف عین و دیگر احباب سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی اصلاح فرمائیں نہیں ملتا کسی بستی کسی ویرانے میں سکوں ملتا ہے جو ساقی ترے میخانے میں چھوڑ کر جائیں اگر دل ترے کاشانے میں کیا ملے گا ہمیں کعبے میں صنم خانے میں چھیڑنا مت کسی دیوانے کو انجانے میں شہر کا شہر بدل دے گا وہ...
  2. Muhammad Ishfaq

    برائے اصلاح

    حمد باری تعالی ہر سو ہے تو اور یکتا ہے تو اور خالق ارض و سما ہے تو اور شان ہے بے پایاں تیری جو لائقِ حمد و ثنا ہے تو ظاہر میں تو ہے باطن میں تو ہر شے میں جلوہ نما ہے تو پایا ہے جس سے آنکھوں نے نور جس نے دی دل کو ضیا ہے تو چارہ گروں میں سب سے برتر اور سب مرضوں کی دوا ہے تو اندھیرے میں تو سویرے...
  3. خ

    غزل بغرضِ اصلاح: پھر سے یادِ یار میں جگنو بلائے جائیں گے

    استادِ محترم سر الف عین سے التماس ہے کہ برائے مہربانی اصلاح فرمائیں راحل بھائی و دیگر احباب سے گزارش ہے کہ اپنے مشورے سے نوازیں پردے اٹھائے جائیں گے پردے گرائے جائیں گے مانوس سے کچھ اجنبی چہرے دکھا ئے جائیں گے یہ بات جو محفل کی ہے محفل میں ہی کیجئے اسے باہر کسے معلوم کیا کیا گل کھلائے...
  4. خ

    ایک نظم بغرضِ اصلاح

    استادِ محترم سر الف عین سے برائے گزارش ہے کہ برائے مہربانی اصلاح فرمائیں اور دیگر احباب سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنی قیمتی مشوروں سے نوازیں زندگی بھی عجب تماشہ ہے اس تماشے میں ہر تماشائی مختلف رنگ و روپ لیتا ہے کوئی پاتا ہے سایہ دار درخت کوئی حصے میں دھوپ لیتا ہے کوئی ہے مبتلا ء جنگ و...
  5. خ

    غزل برائے اصلاح" ترکِ جفا کا اس نے ارادہ نہیں کیا

    جناب سر الف عین سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی غزل کی اصلاح فرمائیں ترکِ جفا کا اس نے ارادہ نہیں کیا میں نے بھی ترکِ عشق کا وعدہ نہیں کیا اس نے بھی بے رخی سے ہی دیکھا مری طرف میں نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا ہم جیسے تھے سو بزم میں ویسے ہی آگئے پوشیدہ خود کو زیرِ لبادہ نہیں کیا واعظ کی بات...
  6. A

    غزل برائے اصلاح: ان کہی بات بھی اِظہار میں آ جاتی ہے

    فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن ان کہی بات بھی اِظہار میں آ جاتی ہے دل لگی چُھپ کے بھی اقرار میں آ جاتی ہے داستاں اپنی بھی اک دن کہیں چھپ جائے گی اب تو ہر بات ہی اخبار میں آ جاتی ہے دُکھ کِسی شخص کا مجھ سے نہیں دیکھا جاتا جان خود میری بھی آزار میں آ جاتی ہے بات تہذیب کی پگڈنڈیوں سے گزرے...
  7. A

    غزل برائے اصلاح: میں ایک خواب نیند میں کھو کر چلا گیا

    مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن میں ایک خواب نیند میں کھو کر چلا گیا اک اور اپنا روز یوں سو کرچلا گیا جانے دُعا وہ کس کی تھی جو کام کرگئی اک حادثہ قریب سے ہو کرچلا گیا خوابوں کے گلشنوں میں ہیں کانٹے اُگے ہوئے یہ کیا تُو میری نیند میں بو کر چلا گیا! میری سُنی نہ ایک، بس اپنی کہے گیا ساتھی بھی درد...
  8. خ

    غزل برائے اصلاح :: جانے کیوں اضطراب میں ہم ہیں

    السلام علیکم استادِ محترم جناب الف عین صاحب امید ہے کہ اپ خیر و عافیت سے ہوں گے بہت دنوں کے بعد محفل پر حاضر ہوا ہوں ایک چھوٹی سی غزل اصلاح کیلئے پیش کرتا ہوں برائے مہربانی اصلاح فرمائیں چاہتوں کے سراب میں ہم ہیں اک مسلسل عذاب میں ہم ہیں یوں تو کہنے کو ہم بھی ہیں بیدار گرچہ غفلت میں...
  9. خ

    غزل برائے اصلاح :مری حیات عجب اضطراب میں گزری

    اساتذۂ اکرم سے اصلاح کی گزارش ہے برائے مہربانی اصلاح فرمائیں الف عین سر عظیم یہ میری عمر عجب اضطراب میں گزری جو پورا ہو نہ سکا ایسے خواب میں گزری رہے ہیں جن میں خفا آدمی سے یزداں سے کچھ ایسی گھڑیاں بھی ہم پر شباب میں گزری سحر ہو کے بھی نہیں ان کا غم گسار کوئی کہ جن کی رات مسلسل...
  10. تنظیم اختر

    غزل برائے اصلاح

    غزل برائے اصلاح بنا آپ کے یہ صنم دیکھ لینا کسی کے بھی ہوں گے نہ ہم دیکھ لینا کبھی تم ہمارے جو ہو نہ سکوگے تو مر جائیں گے، ہے قسم دیکھ لینا سہوں گا محبت میں تیری میں سب کچھ جو چاہے وہ کرکے ستم دیکھ لینا کہ انگلی اٹھانے سے پہلے کسی پر گریباں میں اپنے بھی تم دیکھ لینا پھسلنے کا ڈر ہے یہاں ہر...
  11. خ

    اصلاحِ سخن : ہم اس کا رنج نہ کرتے اگر تو کیا کرتے:

    اساتذۂ اکرم سے اصلاح کی گزارش ہے برائے مہربانی اصلاح فرمائیں نہ ہم یوں اشک بہاتے نہ التجا کرتے اگر نہ دل تری الفت میں مبتلا کرتے چلا گیا جو ہمیں چھوڑ کر خفا ہو کر ہم اس کا رنج نہ کرتے اگر تو کیا کرتے بدل رہا تھا زمانہ تو یہ بتاؤ ہمیں بدلتے ہم نہ اگر پھر تو اور کیا کرتے رہا...
  12. خ

    اصلاحِ سخن: خواب ہو جائیں گے ہم یا پھر گماں ہوجائیں گے،

    سر الف عین و دیگر اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن سب نشاں مٹ جائیں گے اور بے نشاں ہو جائیں گے ہیں حقیقت آج جو کل داستاں ہو جائیں گے بادشاہی اور امیری دو دنوں کی بات ہے بادشاہ و گدا سب پھر ہم عناں ہو جائیں گے کانپتے ہیں سب جزا کے دن کے اس دستور سے جرم خود بولیں گے...
  13. آ

    برائے اصلاح

    گرچہ اٌس نے وفا نہیں کی ہم نے پر بد دعا نہیں کی ایک ہی تھی نشانی اس کی درد کی سو دوا نہیں کی دل تڑپتا رہا ہمارا ہم نے پر التجا نہیں کی عشق میں ہم نے قیس کی طرح حیف ہے انتہا نہیں کی وہ محبت ہو یا عبادت کبھی ہم نے ریا نہیں کی بخش دینا کے حق تھا جیسا بندگی وہ خدا نہیں کی
  14. Misbahuddin Ansari Misbah

    غزل برائے اصلاح

    اسلام وعلیکم ایک ادنی سی کاوش اصلاح کی غرض سے حاضر ہے..... نہ پیچھے کو ہٹنا بغاوت کے بعد تمھیں حق ملےگا شجاعت کے بعد ذرا غور سے دیکھنا بھی گنہ ہے کرے وہ شکایت اطاعت کے بعد چلی چال سرمایہ داروں نے اب یہ لڑے عام جنتا ذلالت کے بعد اگر وقت پر کام آ نہ سکے تو نظر نا اٹھےگی شخاوت کے بعد کبھی...
  15. محمد شکیل خورشید

    ایک اور غزل اصلاح کے واسطے

    دیارِ ہست میں مجھ کو اداس چھوڑ گئی مرا لباس تھی وہ، بے لباس چھوڑ گئی غضب کہ اذنِ ودع لے کے وہ ہوئی رخصت مجھے بنا کے وہ تصویرِ یاس چھوڑ گئی اسے تو درد بھلانے کے ڈھنگ آتے تھے یہ کیسی ٹھیس تھی جینے کی آس چھوڑ گئی چلی گئی ہے وہ کوثر کا جام پینے کو مرے لبوں پہ وہ تا عمر پیاس چھوڑ گئی وہ خود تو سو...
  16. آ

    غزل برائے اصلاح

    عشق سے پہلے ہوئے دوچار ہم اور پھر کہنے لگے اشعار ہم تجھ کو بھی ہونے نہیں دیتے خبر ایسے کرتے ہیں ترا دیدار ہم قدر کرتے ہیں ہماری،غیر بھی پیٹھ پر کرتے نہیں ہیں وار ہم اُس طرف سے تو اگر آواز دے آگ کا دریا بھی کر لیں پار ہم پاس ہوتا ہے ہمارے بس قلم تیر رکھتے ہیں نہ ہی تلوار ہم عشق نے ہم کو...
  17. آ

    نظم برائے اصلاح

    السلام علیکم! ایک نظم اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے۔ دیکھو بچو بہتا پانی گیت سنائے اس کی روانی موجیں اس کی بل کھاتی ہیں آپس میں گھل مل جاتی ہیں کھیتوں کو سیراب کرے یہ فصلوں کو شاداب کرے یہ پیاسوں کی یہ پیاس بجھائے انساں پنچھی اور چوپائے ہاتھ ملائے اوروں سے یہ چلتا جائے زوروں سے یہ رستے میں ہر...
  18. ع

    برائے اصلاح

    وصل کے محل مزارات ہوئے جاتے ہیں خواب آنکھوں میں خیالات ہوئے جاتے ہیں دل کی بستی جو بسائی، تو نے میں نے گلستاں اس کے بھی کھنڈرات ہوئے جاتے ہیں کب، کہاں، کیسے، یہاں کون بچھڑ جائے گا یوں میرے ملک کے حالات ہوئے جاتے ہیں مخلوقِ اشرف کے دامن میں ہے قحطِ الفاظ زیست کے ایسے سوالات ہوئے جاتے ہیں پسِ...
  19. ارشد چوہدری

    ( حسرتوں کے چراغ ) برائے اصلاح

    الف عین فلسفی یاسر شاہ خلیل الر حمن اور دیگر ------------------- چراغ دل میں حسرتوں کے جل رہے ہیں آج بھی اگر دیا ہے دکھ ہمیں تو خوش نہیں سماج بھی ------------------- گلے لگا کے مل ہمیں ، کہ آج دن ہے عید کا حرج نہیں ہے آج تو ، کہ رسم ہے رواج بھی...
  20. ارشد چوہدری

    خدا کی چاہت ( برائے اصلاح )

    الف عین خلیل الر حمن ، فلسفی ، یاسرشاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افاعیل فعولن فعولن فعولن فعولن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں میں ہمارا سہارا خدا ہے ہمیں تو اُسی کا ہی بس آسرا ہے ----------- نہ غیروں کے درپر جھکے سر تمارا ہمیشہ اسی میں ہی تیرا بھلا ہے --------------...
Top