جو دل خوشیوں کا سرچشمہ رہا ہے
وہ درد و غم کا اب مسکن ہوا ہے
نہیں ہم درد اب کوئی کسی کا
معیارِ آدمیت گر چکا ہے
جو جاں دینے کی باتیں کررہا تھا
وہ ہی اب جان کا دشمن ہوا ہے
تم اپنا عکس کس میں ڈھونڈتے ہو
وہ اک پتھر ہے نا کہ آئینہ ہے
میں کیوں دوں بے گناہی کی صفائی
منافق سے مرا پالا پڑا ہے
بہت مشکل ہے...