غزل
اقبال عظیم
آپ میری طبیعت سے واقف نہیں، مُجھ کو بے جا تکلّف کی عادت نہیں
مُجھ کو پُرسِش کی پہلے بھی خواہش نہ تھی، اور پُرسِش کی اب بھی ضرُورت نہیں
یُوں سَرِ راہ بھی پُرسِشِ حال کی، اِس زمانے میں فُرصت کسی کو کہاں!
آپ سے یہ مُلاقات رسمی سَہِی، اِتنی زحمت بھی کُُچھ کم عِنایت نہیں
آپ...
پرستش اس کی فطرت ہے، یہ دیوانہ نہ بدلے گا
چراغوں کے بدل جانے سے پروانہ نہ بدلے گا
بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں
فقط ساقی بدل جانے سے میخانہ نہ بدلے گا
جو ممکن ہو تو سچ مچ کے اجالے ڈھونڈ کر لاؤ
چراغِ مضمحل کی ضو سے غم خانہ، نہ بدلے گا
کمی ہے اس میں کرداروں کی، مقصد کی، تاثر کی
فقط...
درد بڑھ کر خود دوا ہو جائے تو ہم کیا کریں
چارہ گر ہم سے خفا ہو جائے تو ہم کیا کریں
عین ممکن تھا کہ ہم بھی غم سے پا جاتے نجات
دل مگر غم آشنا ہو جائے تو ہم کیا کریں
ہم زباں سے کچھ کہیں تو آپ کا شکوہ بجا
کوئی آنسو لب کشا ہو جائے تو ہم کیا کریں
اپنی جانب سے تو کی ہم نے ہمیشہ احتیاط
پھر بھی بھولے...
بالاہتمام ظلم کی تجدید کی گئی
اور ہم کو صبر و ضبط کی تاکید کی گئی
اول تو بولنے کی اجازت نہ تھی ہمیں
اور ہم نے کچھ کہا بھی تو تردید کی گئی
انجامِ کار بات شکایات پر رکی
پرسش اگرچہ ازرہِ تمہید کی گئی
تجدیدِ التفات کی تجویز رد ہوئی
ترکِ تعلقات کی تائید کی گئی
اپنی زباں سے میں نے کبھی کچھ نہیں...
خود فریبی کو، ستم ہے، آرزو کہتے ہیں لوگ
شوقِ گمراہی کو ذوقِ جستجو کہتے ہیں لوگ
زہر کے ہر گھونٹ کو دیتے ہیں خوش ذوقی کا نام
خودسری کو لذتِ جام و سبو کہتے ہیں لوگ
زخمِ دل پر ڈال دیتے ہیں مقدر کی نقاب
چاکِ پیراہن کو اعجازِ رفو کہتے ہیں لوگ
دیده و دانستہ دیتے ہیں نگاہوں کو فریب
پھول کے چاکِ جگر...
غم تو ہے لیکن غمِ پیہم نہیں ہے، کم سے کم
آنکھ شاید نم ہو، دامن نم نہیں ہے، کم سے کم
زخمِ دل اپنی جگہ باقی ہے، یہ سچ ہے مگر
زخمِ دل کو حاجتِ مرہم نہیں ہے، کم سے کم
یہ نہیں کہتا کہ میں ہر رنج سے محفوظ ہوں
لیکن اب مافات کا ماتم نہیں ہے، کم سے کم
دل کا عالم آج بھی بے شک بہت مشکوک ہے
جو کبھی پہلے...
بارہا ان سے نہ ملنے کی قسم کھاتا ہوں میں
اور پھر یہ بات قصداً بھول بھی جاتا ہوں میں
ڈوبتے دیکھے ہیں ان آنکھوں سے اتنے آفتاب
روشنی کے نام سے اب بھی لرز جاتا ہوں میں
اتنی افسردہ دلی اللہ دشمن کو نہ دے
لوگ ہنستے ہیں تو جی ہی جی میں شرماتا ہوں میں
بے رخی کو ان کی سچ مچ بے رخی سمجھا کیا
آج اپنی اس...
آنکھوں سے اور دل سے خوشی چھین لی گئی
ہم سے ہماری زندہ دلی، چھین لی گئی
اک روز اتفاق سے ہم مسکرائے تھے
اس کی سزا میں، ہم سے ہنسی چھین لی گئی
اربابِ کم نظر بھی ہیں، جلووں سے فیض یاب
دیدہ وروں سے، دیده وری چھین لی گئی
کتنے چراغ نور سے محروم ہو گئے
جب سے ہماری خوش نظری چھین لی گئی
شکوه مرا مزاج،...
کچھ ایسے زخم بھی ہم دل پہ کھائے بیٹھے ہیں
جو چارہ سازوں کی زد سے بچائے بیٹھے ہیں
نہ جانے کون سا آنسو کسی سے کیا کہہ دے
ہم اس خیال سے نظریں جھکائے بیٹھے ہیں
نہ خوفِ بادِ مخالف، نہ انتظارِ سحر
ہم اپنے گھر کے دیے خود بجھائے بیٹھے ہیں
ہمارا ذوق جدا، وقت کا مزاج جدا
ہم ایک گوشے میں خود کو چھپائے...
روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں
پرسشِ حال کی فرصت تمھیں ممکن ہے نہ ہو
پرسشِ حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں
یوں سرِ راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر
تم نے دیکھا بھی نہیں، ہم نے پکارا بھی نہیں
عرضِ احوال کی عادت بھی نہیں ہے ہم کو
اور حالات کا شاید یہ تقاضا...
شکستِ ظرف کو پندارِ رندانہ نہیں کہتے
جو مانگے سے ملے ہم اس کو پیمانہ نہیں کہتے
جہاں ساقی کے پائے ناز پر سجدہ ضروری ہو
وہ بت خانہ ہے، اس کو رند میخانہ نہیں کہتے
جنوں کی شرطِ اوّل ضبط ہے اور ضبط مشکل ہے
جو دامن چاک کر لے اس کو دیوانہ نہیں کہتے
جو ہو جائے کسی کا مستقل، بے شرکتِ غیرے
وہ دل کعبہ...
تیری مدحت اور میں، معذور و سرتاپا قصور
میں کہاں سے لاؤں اتناحوصلہ، اتنا شعور
صرف تیرے آسرے پر لب کشا ہوتا ہوں میں
اس سعادت کی مجھے توفیق دے ربِّ غفور
غنچہ و گل آئنہ تیرے جمالِ قدس کا
ماہ و انجم سے عیاں تیری تجلی، تیرا نور
ہے رواں تیرے اشارے پر نظامِ کائنات
گردشِ افلاک بھی سجدہ کناں تیرے حضور...
تم سے کس نے کہا، میں نے شکوہ کیا؟ خیر جس نے کہا اور جو بھی کہا، کہنے والا غلط فہم و نادان ہے
ہاں کبھی ازرہِ تذکرہ بے خیالی میں ضمناً کوئی بات کہہ دوں یونہی، وہ بھی احباب میں اس کا امکان ہے
ہم جو بھولے سے بھی مسکرائے کبھی، ان کے ماتھے پہ بل پڑ گئے سینکڑوں، جیسے خوشیاں فقط ان کی میراث ہیں
یوں...
نین بھائی نے اقبال عظیم کی غزل کا نیا ورژن تخلیق کیا ہے۔ ہم اسے بصد مسرت اور بلا معذرت× محفلین کے حوالے کر رہے ہیں۔ :)
غزل
نازنینوں کی شکل دیکھ کہاں تک پہنچے
کوئی ٹھرکی نہ پہنچ پایا وہاں تک پہنچے
تیری مسکان میں پنہاں ہے فتور اور ہی کچھ
یہ شرارت کی کتھا دیکھیں کہاں تک پہنچے
"بے کہے بات...
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خواب ہو جاؤ گے، افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
اب تو چہروں کے خد و خال بھی پہلے سے نہیں
کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤ گے
اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا
سرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جاؤ گے
دے رہے ہیں تمہیں جو لوگ رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے...
آخری وقت میں کیا رونقِ دنیا دیکھوں
اب تو بس ایک ہی دُھن ہے کہ مدینہ دیکھوں
از اُفق تا بہ اُفق ایک ہی جلوہ دیکھوں
جس طرف آنکھ اٹھے روضئہ والا دیکھوں
عاقبت میری سنور جائے جو طیبہ دیکھوں
دستِ امروز میں آئینہ فردا دیکھوں
میں کہاں ہوں ، یہ سمجھ لوں تو اٹھاؤں نظریں
دل سنبھل جائے تو میں جانبِ خضرا...
زہر دے دے نہ کوئی گھول کے پیمانے میں
اب تو جی ڈرتا ہے خود اپنے ہی میخانے میں
جامِ جم سے نگہِ توبہ شکن تک، ساقی
پوری روداد ہے ٹوٹے ہوئے پیمانے میں
سارا ماضی میری آنکھوں میں سمٹ آیا ہے
میں نے کچھ شہر بسا رکھے ہیں ویرانے میں
بے سبب کیسے بدل سکتا ہے رندوں کا مزاج
کچھ غلط لوگ چلے آئے ہیں میخانے...
مجھ کو حیرت ہے کہ میں کیسے حرم تک پہنچا
مجھ سا ناچیز درِ شاہِ امم تک پہنچا
ماہ و انجم بھی ہیں جس نقشِ قدم سے روشن
اے خوشا آج میں اس نقشِ قدم تک پہنچا
کتنے خوش بخت ہیں ہم لوگ کہ وہ ماہِ تمام
اس اندھیرے میں ہمیں ڈھونڈ کے ہم تک پہنچا
(قربان یارسول اللہ ﷺ آپ کی اس کمالِ کرم نوازی پر)
اس کو کیا...
غزل
اقبال عظیم
اِس بھری محفل میں اپنا مُدّعا کیسے کہیں
اتنی نازک بات اُن سے برملا کیسے کہیں
اُن کی بےگانہ روی کا رنج ہے ہم کو مگر
اُن کو ، خود اپنی زباں سے بے وفا کیسے کہیں
وہ خفا ہیں ہم سے شاید بر بِنائے احتیاط
اُن کی مجبوری کو بے سمجھے ، جفا کیسے کہیں
اہلِ دل تو لے اُڑیں گے اِس ذرا سی...
میں نے کچھ اور کہا آپ سے اور آپ نے کچھ اور سنا
مجھ میں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ ہی نہیں ہے شاید
جب بھی ملئے وہی شکوے وہی ماتھے پہ شکن
آپ سے کوئی ملے آپ کا منشا ہی نہیں ہے شاید
میں نے تو پرسشِ احوال بھی کی اور مخاطب بھی ہوا
حسنِ اخلاق مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کا شیوہ ہی نہیں شاید
بات اب منزلِ...