غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
نہ ملا کبھی کسی سے اسے دیوتا سمجھ کر
بھلا کیسے پوجتا پھر میں اسے خدا سمجھ کر
میں یہ چاہتا ہوں مجھ سے وہ ملے تو دوست بن کے
نہ بڑا سمجھ کے خود کو، نہ مجھے بڑا سمجھ کر
کوئی انکو یہ بتا دے مرے منہ میں بھی زباں ہے
وہ ستم کریں گے کب تک مجھے بے نوا سمجھ کر
کئے فیصلے ہمیشہ...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
شے زندگی ہے کیا، مری دیوانگی سے پوچھ
بیچارگی ہے کیا، مری دیوانگی سے پوچھ
کب عقل کے ہے پاس جواب اس سوال کا
دیوانگی ہے کیا، مری دیوانگی سے پوچھ
معشوق دل میں، جان میں، آنکھوں میں، ذہن میں
وابستگی ہے کیا، مری دیوانگی سے پوچھ
دل پر ذرا سی ٹھیس لگی اور تو رو دیا
دل کی لگی...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
اس سے بہتر تھا مر نہ جاتے کیوں
بھول کر بھی انہیں بھلاتے کیوں
ان کو شرمندہ کیسے ہونےدیں
زخم اپنے انہیں دکھاتے کیوں
اُن کی آنکھوں میں تھی خوشی کی چمک
رو کے ہم پھر انہیں رلاتے کیوں
کوئی اُن کے قریب آ جاتا
ہم انہیں چھوڑ کر کے جاتے کیوں
دل کو ہم نے بچا کے رکھا ہے...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
محوِ حیرت ہیں ترے شہرہِ آفاقی پر
شک کسی کو نہیں رہبر تری قزاقی پر
منتظر بزم ہے لغزش ہو کوئی کب مجھ سے
کیوں نگاہیں نہیں رہتی ہیں کبھی باقی پر
ہر طرف پھیل گئی بزم میں افراتفری
تھی خطا بزم کی، الزام لگا ساقی پر
عقل کیا دے دی خدا تو نے ذرا انساں کو
وہ اٹھاتا ہے سوال اب تری...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
سب تھے منظورِ نظر ، ایک میں رسوا تھا فقط
تھے تماشائی سبھی، میں ہی تماشا تھا فقط
سامنے حدِ نظر تک مرے صحرا تھا فقط
اور یہ نظارہ ہی جینے کا سہارا تھا فقط
اس کی دولت کی تمنا مری دشمن نکلی
میرے قبضے میں محبت کا خزانہ تھا فقط
ایسا محسوس ہوا جیسے کہ تو آیا تھا
در حقیقت ترے...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
سہہ نہیں پائیں گے فرقت کی سزا جیتے جی
ہم تو مر جائیں گے ہمدم بخدا جیتے جی
آؤ کروادیں ملاقات دلوں کی چھپ کر
دیکھنا پھر نہ کبھی ہونگے جدا جیتے جی
تو نے سجھا تری ہر چیز ترے ساتھ گئی
مجھ سے بچھڑے گی نہ خوشبوئے حنا جیتے جی
تو نے اک بات کہی کہہ کے جسے بھول گیا
بات نے تیری...
غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
چپ چاپ کر کے کام وہ بزدل کہاں گیا
جذباتِ التفات کا قاتل کہاں گیا
آتے ہی جس نے شمع بجھادی بلا سبب
وہ نامراد دشمنِ محفل کہاں گیا
تم ہی تلاش کرکے بتا دو کچھ اسکا حال
ہم کو تو یہ پتہ ہی نہیں دل کہاں گیا
ہم تو مقابلے کو بھنور سے نکل پڑے
یہ تم خیال رکھنا کہ ساحل کہاں گیا
پیدا...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
پڑی نظر جو مری تو شباب جھوم اٹھا
پڑا ہوا تھا جو اس پر نقاب جھوم اٹھا
قبول اس نے کیا جیسے ہی وہ سرخ گلاب
تو میں نے دیکھا خوشی سے گلاب جھوم اٹھا
لپک کے پھرتی سے شیطان کو مٹا ڈالا
فلک نے دیکھا کہ ساقب شہاب جھوم اٹھا
کھڑی تھی دیر سے کشتی تو جھیل تھی خاموش
چلائی جیسے ہی...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
کیا جھیل، جھرنے، سا گر، دریا نہیں جہاں میں
سیراب پھر بھی کوئی دیکھا نہیں جہاں میں
دعوے سنو تو کوئی جھوٹا نہیں جہاں میں
سچ یہ مگر ہے، کوئی سچا نہیں جہاں میں
پیچھے ہے کیا کسی کے اور دل میں کیا چھپا ہے
جو یہ بتا دے ایسا شیشا نہیں جہاں میں
خود غرضیوں کی کھیتی ہوتی جہاں...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
ایسی ہے چمک گویا اترا ماہ آنکھوں میں
دفعتاً ابھر آئی دل کی چاہ آنکھوں میں
بے حجاب ہونے کو ہے شباب بھی بیتاب
ہے اِدھر بھی بیتابی بے پناہ آنکھوں میں
ہو گیا سکوں غائب، بڑھ گئی ہے بیچینی
کوئی آ کے بس بیٹھا خواہ مخواہ آنکھوں میں
اس کا حسن ہے گویا پر کشش غزل کوئی
دل میں...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
قحط میرے لئے، برسات ہے اوروں کے لئے
میں اکیلا ہوں، ترا ساتھ ہے اوروں کے لئے
بات اتنی ہے تجھے پیار ہوا ہے مجھ سے
اتنی سی بات بڑی بات ہے اوروں کے لئے
آنکھیں ہیں بند کہ بیدار، ہے اس پر موقوف
دن ہے میرے لئے اور رات ہے اوروں کے لئے
آپ کے اپنے یہاں قدرکہاں چھوٹوں کی
آپ کا...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
ہر ایک شب کو ترے نام ہونا پڑتا ہے
اداس دل کو سرِ شام ہونا پڑتا ہے
خبیث تہمتیں دامن کو چیر جاتی ہیں
تمہارے واسطے بدنام ہونا پڑتا ہے
ہمیں سے لگتا نہیں ہے کسی پہ بھی الزام
ہمیں کو موردِ الزام ہونا پڑتا ہے
قلم ہیں کتنے جو تلوار بن کے جیتے ہیں
یہاں قلم کو بھی نیلام ہونا...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
لگتا تو یوں ہے جیسے سمجھتا نہیں ہے وہ
معصوم جتنا لگتا ہے اتنا نہیں ہے وہ
مجھ میں بسا ہوا بھی ہے وہ سر سے پیر تک
اور کہہ رہا ہے یہ بھی کہ میرا نہیں ہے وہ
کر دونگا موم باتوں میں سوز و گداز سے
جذبات کی تپش سے مبرا نہیں ہے وہ
واضح یہ کر چکا ہے یقیں دل کے وہم پر
میرا ہے...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
اہلِ ثروت کو محلات بنانے کی ہے فکر
ہم غریبوں کو فقط جسم چھپانے کی ہے فکر
کون کرتا ہے نگہداشت کسی کی لوگو
جس کو دیکھو اسے اپنے کو بچانے کی ہے فکر
ہم جدائی کے تصور سے بھی کانپ اٹھتے ہیں
آپ کو ہم سے فقط پیچھا چھڑانے کی ہے فکر
آپ ہر روزلگاتے ہیں پلستر اس پر
ہم کو یہ بیچ...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
جو برا تھا بھلا ہوگیا
جو بھلا تھا برا ہو گیا
زہر کیا گھل گیا خاک میں
ہر ثمر بے مزا ہو گیا
کیوں منائیں اسے بار بار
ہونے دو جو خفا ہو گیا
دل ہوئے مبتلائے نفاق
یہ مرض لا دوا ہو گیا
میں ہوں ڈوبا ہوا شرم سے
ہر کوئی بےحیا ہو گیا
ڈھک لیا ارض نے اس طرح
کہ قمر بے ضیا ہو گیا...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
خود ہی پہلے تو سمندر میں تھا کودا کوئی
اور اب ڈھونڈتا پھرتا ہے وہ تنکا کوئی
ایسوں ایسوں میں بھی دیکھی ہے نزاکت ہم نے
حسن سے جنکا نہیں دور کا رشتہ کوئی
ہم تری بزم سے چپ چاپ چلے جائینگے
اب خدارا نہ کھڑا کرنا تماشا کوئی
ایک بس تیری تمنا تھی جو کر بیٹھے تھے
چاہ کر بھی...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
انسان! رہے یاد کہ مرنا بھی پڑے گا
اور قبر کے گڈھے میں اترنا بھی پڑے گا
کرنا ہے اگر سارے زمانے کو معطر
خوشبو! تجھے ہر سمت بکھرنا بھی پڑے گا
معشوق کو گرویدہ اگر کرنا ہے اپنا
مرغوب طریقے سے سنورنا بھی پڑے گا
مانا کہ تری آنکھیں سمندر سی ہیں گہری
اس گہرے سمندر میں اترنا...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
مجھ پر بھی آ رہا ہے الزام تھوڑا تھوڑا
اور تو بھی ہو رہا ہے بدنام تھوڑا تھوڑا
"یاد آتا ہوں کبھی میں؟"، جب پوچھا میں نے اس سے
نظریں جھکا کے بولا "ہر شام تھوڑا تھوڑا "
آنکھوں سے اس کے ہوکے دل میں اتر رہا ہوں
سانچے میں ڈھل رہا ہے گلفام تھوڑا تھوڑا
جاتا ہوں جس جگہ بھی، آ...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
منتظر ہوں میں جس کا وہ شباب کیا ہوگا
با حجاب دیکھا ہے، بے حجاب کیا ہوگا
ماہتاب دیکھا تو یہ قیاس کر بیٹھا
اسکے حسن کے آگے ماہتاب کیا ہوگا
منتظر ہوں سننے کو خود زبان سے اس کی
جانتا ہوں میں یوں تو کہ جواب کیا ہوگا
جو ملے گا دوزخ میں، جان تو نہیں لے گا
اس عذاب سے بدتر وہ...
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
اُف کیسے ہو بیان وہ پیکر کمال کا
اوپر سے تاج زلفوں کا سر پر کمال کا
رُخ پر ہے چاند کی سی سفیدی کمال کی
آنکھوں میں گہرا نیلا سمندر کمال کا
ملبوس سارا جسم ہے ریشم میں حسن کے
زریں حیا کا اس پہ ہے زیور کمال کا
سینے میں گھس کے دیتا ہے اک زندگی نئی
ہوتا ہے انکے طیش کا...