غزل
(شاداب لاہوری)
حضور آپ کا بھی احترام کرتا چلوں
ادھر سے گزرا تھا سوچا سلام کرتا چلوں
نگاہ و دل کی یہی آخری تمنّا ہے
تمہاری زُلف کے سائے ميں شام کرتا چلوں
انہيں يہ ضِد کہ مجھے ديکھ کر کسی کو نہ ديکھ
ميرا يہ شوق کہ سب سے کلام کرتا چلوں
يہ ميرے خوابوں کی دُنيا نہيں سہی، ليکن
اب آ گيا ہوں تو...
غزل
(پنڈت رتن پنڈوری)
جدا وہ ہوتے تو ہم ان کی جستجو کرتے
الگ نہیں ہیں تو پھر کس کی آرزو کرتے
ملا نہ ہم کو کبھی عرضِ حال کا موقع
زباں نہ چلتی تو آنکھوں سے گفتگو کرتے
اگر یہ جانتے ہم بھی انہیں کی صورت ہیں
کمالِ شوق سے اپنی ہی آرزو کرتے
دلِ حزیں کے مکیں تو اگر صدا دیتا
تری تلاش کبھی ہم نہ کُو بہ...
غزل
(رئیس امروہوی)
صبحِ نَو ہم تو ترے ساتھ نمایاں ہوں گے
اور ہوں گے جو ہلاکِ شبِ ہجراں ہوں گے
صدمہء زیست کے شکوے نہ کر اے جانِ رئیس
بخدا یہ نہ ترے درد کے درماں ہوں گے
میری وَحشت میں ابھی اور ترقی ہوگی
تیرے گیسو تو ابھی اور پریشاں ہوں گے
آزمائے گا بہرحال ہمیں جبرِ حیات
ہم ابھی اور اسیرِ غمِ...
جاڑے
(ساغر خیامی)
ایسی سردی نہ پڑی ایسے نہ دیکھے جاڑے
دو بجے دن کو اذاں دیتے تھے مرغ سارے
وہ گھٹا ٹوپ نظر آتے تھے دن کو تارے
سرد لہروں سے جمے جاتے تھے مے کے پیالے
ایک شاعر نے کہا چیخ کے ساغر بھائی
عمر میں پہلے پہل چمچے سے چائے کھائی
آگ چھونے سے بھی ہاتھوں میں نمی لگتی تھی
سات کپڑوں میں بھی...
غزل
(ساغر صدیقی)
جب سے دیکھا پَری جمالوں کو
مَوت سی آ گئی خیالوں کو
دیکھ تشنہ لبی کی بات نہ کر
آگ لگ جائے گی پیالوں کو
پھر اُفق سے کِسی نے دیکھا ہے
مُسکرا کر خراب حالوں کو
فیض پہنچا ہے بارہا ساقی
تیرے مستوں سے اِن شوالوں کو
دونوں عالم پہ سرفرازی کا
ناز ہے تیرے پائمالوں کو
اس اندھیروں کے عہد...
غزل
(نواز دیوبندی)
وہ رُلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
جب میں رو کر مُسکرایا دیر تک
بھولنا چاہا کبھی اُس کو اگر
اور بھی وہ یاد آیا دیر تک
خودبخود بےساختہ میں ہنس پڑا
اُس نے اِس درجہ رُلایا دیر تک
بھوکے بچوں کی تسلّی کے لیئے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
گُنگُناتا جا رہا تھا ایک فقیر
دھوپ رہتی ہے نہ...
غزل
(منظر بھوپالی)
سحر نے اندھی گلی کی طرف نہیں دیکھا
جسے طلب تھی اُسی کی طرف نہیں دیکھا
سبھی کو دُکھ تھا سمندر کی بیقراری کا
کسی نے مُڑ کے ندی کی طرف نہیں دیکھا
جو آئینے سے ملا آئینے پہ جھنجھلایا
کسی نے اپنی کمی کی طرف نہیں دیکھا
سفر کے بیچ یہ کیسا بدل گیا موسم
کہ پھر کسی نے کسی کی طرف نہیں...
غزل
(ڈاکٹر نسیم نکہت لکھنوی)
پتھروں کا خوف کیا جب کہہ دیا تو کہہ دیا
خود کو ہم نے آئینہ جب کہہ دیا تو کہہ دیا
ہم تمہاری ناؤ کو ساحل تلک پہنچائیں گے
ہے ہمارا فیصلہ جب کہہ دیا تو کہہ دیا
آندھیوں سے بھی چراغ اپنا بچا لے جائیں گے
ہم میں ہے وہ حوصلہ جب کہہ دیا تو کہہ دیا
روز ہم خیمے بدلنے میں...
غزل
(حامد اقبال صدیقی، ممبئی)
زباں، اظہار، لہجہ بھول جاؤں
مرے معبود کیا کیا بھول جاؤں
بکھر جاؤں زمیں سے آسماں تک
پھر ایسا ہو، سمٹنا بھول جاؤں
میں تیرا نام اتنی بار لکھوں
کہ اپنا نام لکھنا بھول جاؤں
تری پرچھائیں تو لے آؤں گھر تک
کہیں اپنا ہی سایہ بھول جاؤں
تری آواز تو پہچان لوں گا
یہ ممکن ہے...
غزل
(معراج فیض آبادی)
ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم
اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم
کیوں ہمیں لوگ سمجھتے ہیں یہاں پردیسی
اک مدت سے اسی شہر میں آباد ہیں ہم
کاہے کا ترکِ وطن، کاہے کی ہجرت بابا
اسی دھرتی کی، اسی دیش کی اولاد ہیں ہم
ہم بھی تعمیرِ وطن میں ہیں برابر کے شریک
در و دیوار...
غزل
(معراج فیض آبادی)
محبت کو میری پہچان کردے
میرے مولا مجھے انسان کردے
بہت دن سے اکیلا چل رہا ہوں
خداوندا! سفر آسان کردے
در و دیوار شکوہ کررہے ہیں
اُسے اک دن میرا مہمان کردے
شکستہ بام و در دیکھے نہ جائیں
حویلی کو میری میدان کردے
میں جب بولوں تو مہکے ساری محفل
میری آواز کو لوبان کردے
محبت،...
غزل
(معراج فیض آبادی)
اسی تھکے ہوئے دستِ طلب سے مانگتے ہیں
جو مانگتے نہیں رب سے، وہ سب سے مانگتے ہیں
وہ بھیک مانگتا ہے حاکموں کے لہجے میں
ہم اپنے بچوں کا حق بھی ادب سے مانگتے ہیں
میرے خدا اُنہیں توفیقِ خودشناسی دے
چراغ ہو کہ اُجالا جو شب سے مانگتے ہیں
وہ بادشاہ اِدھر مڑ کہ دیکھتا ہی نہیں
ہم...
غزل
(معراج فیض آبادی)
یہ دنیا عالمِ وحشت میں کیا کیا چھوڑ دیتی ہے
سمندر کی محبت میں کنارا چھوڑ دیتی ہے
بھروسہ کیا کریں اس زندگی کا، یہ تو انساں کو
فنا کی وادیوں میں لا کہ تنہا چھوڑ دیتی ہے
خُدا محفوظ رکھے ایسی مجبوری سے ہم سب کو
جو مجبوری پڑوسی کا جنازا چھوڑ دیتی ہے
غریبی وہ برائی ہے وہ...
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
(معراج فیض آبادی)
ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے
تیری یادوں کو بھی رُسوا نہیں ہونے دیتے
کچھ تو ہم خود بھی نہیں چاہتے شہرت اپنی
اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے
عظمتیں اپنے چراغوں کی بچانے کے لئے
ہم کسی گھر میں اُجالا نہیں ہونے دیتے
آج بھی گاؤں میں...
غزل
(سعید احمد اعجاز)
شرما کے آپ خونِ تمنّا نہ کیجئے
اب آئیے بھی وعدہء فردا نہ کیجئے
میں بھی گلُو تو رکھتا ہوں اِس کو نوازئیے،
یہ التفات جانبِ مینا نہ کیجئے
میرے بھی لب ہیں صورتِ ساغر سرور خیز
چکھ لیجئے تو خواہشِ صہبا نہ کیجئے
مجروح زخمہ کیجئے میرا ربابِ دل
خوں نکلے، جائے نغمہ، تو پروا نہ...