غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
بیدار اِس خیال سے اب ہو رہا ہوں میں
آنکھیں کھُلی ہیں لاکھ مگر سو رہا ہوں میں
شاید مری طرح یہ نہیں واقفِ مآل
گو پھُول ہنس رہے ہیں مگر رو رہا ہوں میں
کیا ہو مآلِ سعی مجھے کچھ خبر نہیں
کشتِ عمل میں بیج مگر بو رہا ہوں میں
کرنی کی راہ اور ہے، بھرنی کی راہ اور...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
فکر کی کون سی منزل سے گزرتا ہوں میں
اب تو اک شعر بھی کہتے ہوئے ڈرتا ہوں میں
حوصلہ دل کا بڑھاتی ہے عزائم کی شکست
خونِ جذبات سے کچھ اور نکھرتا ہوں میں
کس کے پَرتو سے مری رُوح کو ملتا ہے جمال
کس کی تہذیب کے صدقے میں سنورتا ہوں میں
میری فن کار طبیعت کا یہ...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
رُخ تو میری طرف سے پھیرے ہیں
پھر بھی مدِّنظر وہ میرے ہیں
جس طرف میں نگاہ کرتا ہوں
کچھ اُجالے ہیں، کچھ اندھیرے ہیں
آپ کی مُسکراہٹوں کے نثار
پُھول چاروں طرف بکھیرے ہیں
کروٹیں وقت کی انہیں کہیئے
نہ ہیں شامیں نہ یہ سویرے ہیں
میں ہوں اُن کے سلوک کا کشتہ
جو...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
رفتہ رفتہ دُنیا بھر کے رشتے ناتے ٹوٹ رہے ہیں
بیگانوں کا ذکر ہی کیا جب اپنے ہم سے چُھوٹ رہے ہیں
اُن کی غیرت کو ہم روئیں یا روئیں اپنی قسمت کو
جن کو بچایا تھا لُٹنے سے اب وہ ہم کو لُوٹ رہے ہیں
ساقی تیری لغزشِ پیہم ختم نہ کر دے میخانے کو
کتنے ساغر ٹُوٹ چکے...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
ہم اِسے نعمتِ ہستی کا بدل کہتے ہیں
عشق کو لوگ حماقت میں اجل کہتے ہیں
اکبر آباد ہے قرطاسِ محبت کی زمیں
ہم تو ہر اشک کو اک تاج محل کہتے ہیں
وقت نے آج تک اِس راز کی تشریح نہ کی
نام کِس کا ہے ابد، کِس کا ازل کہتے ہیں
کوئی دیوانہ ہی زنجیر میں رہتا ہے اسیر
عین...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
تُو میرے ہر راز سے محرم
پھر بھی مجھ سے واقف کم کم
سب کے لب پر تیرا نغمہ
سب کے ہاتھ میں تیرا پرچم
تجھ میں گنگا، تجھ میں جمنا
تُو ہی تربینی کا سنگم
اور نہیں کچھ خواہش میری
دے دے بخشش میں اپنا غم
موت آئی کس وقت منوّر
ہر گھر میں ہے تیرا ماتم
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی سودا)
باتیں کِدھر گئیں وہ تِری بھولی بھالِیاں؟
دِل لے کے بولتا ہَے، جو اَب تو، یہ بولِیاں
ہر بات ہَے لطیفہ و ہر یک سُخن ہَے رمز
ہر آن ہَے کِنایہ و ہر دم ٹھٹھولِیاں
حَیرت نے، اُس کو بند نہ کرنے دیں پِھر کبھو
آنکھیں، جب آرسی نے، تِرے مُنہ پہ کھولِیاں
کِس نے کیا...
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی متخلص بہ سوداؔ)
چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا
پردے میں تھا آفتاب دیکھا
کُچھ مَیں ہی نہیں ہوں، ایک عالم
اُس کے لیے یاں خراب دیکھا
بے جُرم و گناہ، قتلِ عاشِق
مذہب میں تِرے ثواب دیکھا
جِس چشم نے مُجھ طرف نظر کی
اُس چشم کو میں پُرآب دیکھا
بھوَلا ہے وہ دِل سے لُطف اُس کے...
غزل
(خاطر غزنوی)
انساں ہوں گھِر گیا ہوں زمیں کے خداؤں میں
اب بستیاں بساؤں گا جا کر خلاؤں میں
یادوں کے نقش کندہ ہیں ناموں کے روپ میں
ہم نے بھی دن گزارے درختوں کی چھاؤں میں
دوڑا رگوں میں خوں کی طرح شور شہر کا
خاموشیوں نے چھین لیا چین گاؤں کا
یوں تو رواں ہیں میرے تعاقب میں منزلیں
لیکن میں...
غزل
(حمایت علی شاعر)
بدن پہ پیرہنِ خاک کے سوا کیا ہے
مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے
یہ شہرِ سجدہ گزاراں دیارِ کم نظراں
یتیم خانہء اداک کے سوا کیا ہے
تمام گنبد و مینار و منبر و محراب
فقیہِ شہر کی املاک کے سوا کیا ہے
کھلے سروں کا مقدر بہ فیض جہلِ خرد
فریب سایہء افلاک کے سوا کیا ہے
یہ میرا...
غزل
(ڈاکٹر نسیم نکہت لکھنوی)
پھول بننا کسی گلشن میں مہکتے رہنا
پھر بھی کانٹوں کی نگاہوں میں کھٹکتے رہنا
میری قسمت میں نہ سورج نہ ستارا نہ دِیا
جگنوؤں تم میرے آنگن میں چمکتے رہنا
باندھ کر ہاتھ میرے رسموں کی زنجیروں سے
چوڑیوں سے یہ تقاضہ ہے کھنکتے رہنا
داستانوں سی وہ بھیگی ہوئی بوڑھی آنکھیں
وہ...