بابا جانی! تقریباً چھ سال کے بعد کچھ لکھا ہے۔ آپ سے اور دیگر محفلین سے اصلاح کا طالب ہوں۔
یادِ گزشتگاں کا نمکدان مت اٹھا
دل سیلِ کار و کِشت سے حیران مت اٹھا
حیرت پہ آئینوں کی، کبھی تو سوال کر
شیشہ گرانِ شہر کے احسان مت اٹھا
شاید شبِ ابد کا مسافر نکل پڑے
ٹانکے ہیں آسمان پہ، مرجان مت اٹھا
بے...
وفا مجھ سے نہ ہو پائی؟ چلو میں بے وفا، اچھا!
کیا مجھ میں ہے اس کے بعد بھی باقی رہا اچھا؟
اگر میں چھوڑ جاؤں اور دل کو توڑ جاؤں تو
مجھے دینا جو قاتل کی ہے ہوتی نا سزا، اچھا!
ہاں اِک معصوم لڑکی تھی، کہاں اب کھو گئی ہے وہ؟
مرے پوچھے پہ کہتی ہے، وہ بھولا پن گیا، اچھا!
کیا ہونے کا سوچا تھا، کہاں اب...
سمجھیے جیسے مر گیا ہوں میں
خود سے خود ہی بچھڑ گیا ہوں میں
آپ کو کیا بتاؤں حال اپنا
اپنی قسمت سے لڑ گیا ہوں میں
جانتا تھا وفا نہیں ملنی
پھر بھی ان ہی پہ مر گیا ہوں میں
دیکھ کر خود کو آج آئینے میں
ایک بار پھر بکھر گیا ہوں میں
ان کا اب ذکر بھی نہیں کرتا
لگ رہا ہے بگڑ گیا ہوں میں
اب کسی سے...
جو تیری بات سنیں ان سے نبھا کیوں نہیں کرتے؟
جو تجھے چاہتے ہیں ان سے وفا کیوں نہیں کرتے؟
ہر کسی سے ہے تمہیں ذوق شناسائی مگر سن
تم کسی ایک ہی چہرے پہ ڈٹا کیوں نہیں کرتے؟
یہ تمہاری ہے ادا یا کہ جلانا ہمیں مقصود
تم رقیبوں سے مری جان بچا کیوں نہیں کرتے؟
ہجر کے دور کی تلخی ہے، بُجھے رہتے ہیں
تم مرے...
یادِ ماضی کو ہم سے جدا نہ کرو
میرا دو پل کا جیون تباہ نہ کرو
وہ کریں یاد ہم کو ہے ان کا کرم
وہ جو نہ بھی کریں تو گلا نہ کرو
گر ہمیں وصل کا خوب ہے انتظار
وہ تو کہتے ہیں ہم سے ملا نہ کرو
ہم نے چاہا ہے انکو اور کہہ بھی دیا
اور وہ کہتے ہیں یہ سب کہا نہ کرو
یہ غزل ہم نے لکھی تیرے نام ہے
آپ مجھ پے...
جفا کر کے وفا سمجھتے ہو؟
تم خود کو کیا سمجھتے ہو؟
تم سمجھتے ہو ہمیں کھوٹا سکا
اور خود کو کیا کھرا سمجھتے ہو؟
اور بھی عیب بتاؤ نا ہمارے ہم کو
یا صرف ہمیں بے وفا سمجھتے ہو؟
فخرؔ کا حال تک نہیں سنتے
ہمیں کیا تم مَرا سمجھتے ہو؟
ہجر میں ہم نے صنم جتنے زخم جھیلے ہیں
پوچھیے مت! سبھی یہ آپ کے وسیلے ہیں
کبھی چاہو، تو آ جانا! ہمارے پاس کہ اب بھی
تمہارے بن، قسم تیری! بہت زیادہ اکیلے ہیں
بھلے ہی عشق سننے میں بہت بے کار لگتا ہے
سبھی گلشن کے رنگ و ڈھنگ اسی سے ہی سجیلے ہیں
ہمیں تو یاد ہے اب بھی تمہارا روٹھ کر کہنا
چلے جاؤ کہ...
شاعری جس کو آتی ہے، اُسے رونا نہیں آتا
درد لکھنا تو آتا ہے، زخم دینا نہیں آتا
مزاج اپنا اگرچہ مختلف ہو گا سبھی سے پر
ہمیں موقع کی نسبت سے بدل جانا نہیں آتا
ہم ہی تو ہیں جو ہر اک زخم سہتے ہیں اور ہنستے ہیں
سر محفل ہمیں تو اشک بہانا نہیں آتا
چلو اب سن بھی لو کہنا، نہیں ناراضگی اچھی
ہمیں تعلق...
نگاہ تم سے ملا کر ہم مئے خانہ بھول جاتے ہیں
تمہیں پا کر قسم تیری زمانہ بھول جاتے ہیں
تیرے رخسار کی شوخی اثر کرتی ہے بھنوروں پر
کہ ان کی مست رنگت سے وہ کلیاں بھول جاتے ہیں
ہمیں جب بھی کبھی آیا ہے غصہ اُس کی باتوں پر
وہ چہرہ پھول سا دیکھیں تو غصہ بھول جاتے ہیں
کِیا کیا کچھ نہیں ہم نے سبھی کچھ...
فخر اس ہنر میں کب سے کمال رکھتا ہے
آنکھ میں نیند نہیں، خواب پال رکھتا ہے
ہم نے چاہا ہے انہیں ، ان کو اس سے کیا مطلب
وہ تو باتوں سے ہمیں خوب ٹال رکھتا ہے
کس طرح دردِ دل چہرے سے عیاں ہو تیرا
کہ تُو غم میں بھی تبسم بحال رکھتا ہے
ایک فرقہ ہے مکمل ہمارے یاروں کا
جان سے بڑھ کے ہمارا خیال رکھتا ہے...
اک درد ملا ہے مجھ کو سہنے بھی نہیں ہوتا
کہنا تھا جو بھی اس سے کہنے بھی نہیں ہوتا
میں یاد اس کو کر کے بس مسکراتا جاؤں
وہ دور ہے کچھ اتنا ملنے بھی نہیں ہوتا
وہ پھول جیسا نازک اور شہد جیسے میٹھا
نہ چھُو ہیں سکتے اس کو، پینے بھی نہیں ہوتا
'تم کچھ بھی نہیں' کہہ کر بھی فکر کرے میری
پیار اس سے ٹھیک...
تجھے کہتا ہوں نخوت سے کہ بنیادیں ہلا دے گا
تمھارا نام تک بھی صفحہِ ہستی سے مٹا دے گا
تجھے ہے مان اپنے حسن کا لیکن یہ کب تک ہے
یہ عشق اک پل میں تیرا کَبَر مٹی میں ملا دے گا
ہمیں بھی عشق کرنے کا جنوں چھایا لڑکپن میں
نہیں معلوم تھا یہ شوق میرا دل جلا دے گا
میں اپنے من کو سمجھاتا ہوں جب تم ہو...
اک روز تیرے ساتھ گھر آباد کریں گے
ویران دل کو دم تیرے سے شاد کریں گے
چپ رہ کے صبر کر اور یاد کیے جا
وہ لوگ تجھے مرضیوں سے یاد کریں گے
ہاں پیار انہیں ہم سے ہے اور بے حساب ہے
اب اُن سے بھی ہم وقت کی فریاد کریں گے؟
اپنے لگائے زخم پر خود ہی کریں پٹی
اب دوست اِس سے بڑھ کے کیا اِمداد کریں گے؟
ہم...
کیا سے کیا بن گئے افسوس زمانے والے
کتنے سادہ تھے سبھی لوگ پرانے والے
وہ جو رکھتے تھے نہ اپنوں میں اناؤں کو
کھو گئے لوگ وہ رشتوں کو نبھانے والے
وہ جو حق سچ ہی کہا اور سنا کرتے تھے
جن کو آتے تھے نہیں بول بہانے والے
جن کو لگتے تھے مسافر بھی خدا کی نعمت
خالی جیبوں میں بھی لگتے تھے خزانے والے
جن...
یار جتنے بھی ملے
مطلب کے سوا نہ ملے
سب میسر ہے شہر میں
بس سچی وفا نہ ملے
یہاں ہر فرد ہی رہزن
کوئی رہنما نہ ملے
کہر ہر جا ہی دکھے
پر باد صبا نہ ملے
جو بھی راحت ہے ملے
غم سے جدا نہ ملے
کوئی ہمدرد ملے
کہ جو بکا نہ ملے
کوئی تو اہل...
علم عروض سے ہمارا دور دور کا واسطہ نہیں، تاہم، سخن شناسی کا دعویٰ ضرور ہے۔ اسی نسبت سے ایک نئی لڑی کے ساتھ حاضر ہیں۔ اس لڑی میں اساتذہ کرام سے فیض پانے کا پورا اہتمام کیا جائے گا۔ گو کہ اس سے قبل بھی ایسے کئی سلسلے شروع کیے جا چکے ہیں تاہم اس لڑی کی انفرادیت یہ ہو گی کہ یہاں آسان اور سادہ الفاظ...
ایک نظم پیش خدمت ہے، براہ کرم، تعمیری تنقید و اصلاح فرمائیں
ماں مجھے نیند کیوں نہیں آتی؟
ماں، مجھے چین کیوں نہیں ملتا؟
ماں، مجھے خواب کیوں نہیں آتے؟
باتیں کرتا ہوں رات بھر لیکن
در و دیوار چپ کیوں رہتے ہیں؟
یہ کوئی بات کیوں نہیں کرتے؟
ماں
عجب حال ہے مرا کہ مجھے
دنیا بھر کی دوائیں کھا کر بھی...
میں جب بچہ تھا
تو اکثر
کھلونے ٹوٹ جاتے تھے
میرے رونے پہ
ماں آکر کھلونے جوڑ دیتی تھی
سنا ہے ماں سے بھی بڑھ کر
تجھے الفت ہے بندوں سے
تو
آ کے جوڑ دے یا رب
میں خود کو توڑ بیٹھا ہوں
از قلم : ملک محمد اسد
اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں یہ نمکین سی کوشش پیش کر رہا ہوں۔
اب کے اصلاح اور تنقید کے ساتھ سرزنش کی بھی گزارش ہے.
آج تم کو بھی سناتا ہوں وہ پیارے، سارے
اس نے مجھ کو جو دیے پیار کے لارے، سارے
فرطِ جذبات میں کہہ بیٹھا اسے ماہ جبیں
اس نے پھر دن میں دکھائے مجھے تارے سارے
ہوئی تنہا تو مجھے گھر...