تحریر: منصوراحمد
میرے دوست نے کہا یار تم بلاگ کیوں نہیں لکھتے، میں نے پوچھ لیا کیسے لکھتے ہیں بلاگ؟ بس پھر کیا تھا مشورہ دینے والا دوست یک دم فلسفی بن گیا ،عقل بند نےذہن پرزور ڈالتے ہوئے ایسا منہ بنایا جیسے قبض ہو، اور منہ ٹیڑھا کرکے بولا ، بھائی بہت آسان ہے ، جو دیکھو، اس کو سمجھو اور سادہ سے...
گُل کرو شمعیں!
لفظ خالی ہیں معانی سے پریشاں ہیں خیال
ایک زنجیرِ شکستہ ہیں دماغوں میں سوال
آخرِش خواہشِ پروازسے محرُوم ہُوئی
فکر جو منتظرِ حرفِ اجازت ہی رہی
ہمسفر اپنے رہے صِرف اُمیدوں کے سراب
سوگئے جاگتی آنکھوں میں نئی صُبح کے خواب
خواب شرمندۂ تعبیر بھی ہو سکتے تھے
ہم سِیہ بخت سہی، سُرخ...
وٙجد کرتی اک دُعا کچے مکانوں سے اٹھی
روشنی تسبیح کے رنگین دانوں سے اٹھی
................
کب نٙمُودِ جلوہءشہؐ بس، تٙریِسٹھ سال ہیں
آیہء رحمت کی ضو سارے زمانوں سے اٹھی
................
سرخ آفت سے مُزّین، تٙختہء گُل کی سحر
شٙب کو نارنجی قیامت شمع دانوں سے اٹھی
................
سٙبزہ و گُل سب...
غزل
شانِ عطا کو، تیری عطا کی خبر نہ ہو !
یُوں بِھیک دے، کہ دستِ گدا کو خبر نہ ہو
چُپ ہُوں، کہ چُپ کی داد پہ ایمان ہے مِرا
مانگوں دُعا جو میرے خُدا کو خبر نہ ہو
کر شوق سے شِکایتِ محرُومئ وَفا
لیکن مِرے غرُورِ وَفا کو خبر نہ ہو
اِک رَوز اِس طرح بھی مِرے بازوؤں میں آ
میرے ادب کو، تیری...
غزلِ
ہنسے تو آنکھ سے آنسو رَواں ہمارے ہُوئے
کہ ہم پہ دوست بہت مہرباں ہمارے ہُوئے
بہت سے زخم ہیں ایسے، جو اُن کے نام کے ہیں
بہت سے قرض سَرِ دوستاں ہمارے ہُوئے
کہیں تو، آگ لگی ہے وجُود کے اندر
کوئی تو دُکھ ہے کہ، چہرے دُھواں ہمارے ہُوئے
گرج برس کے نہ ہم کو ڈُبو سکے بادل
تو یہ...
احمد ندیم قاسمی
حیراں حیراں کونپل کونپل کیسے کِھلتے پُھول یہاں
تنے ہُوئے کانٹوں کے ڈر سے پُوجی گئی ببول یہاں
کلیاں نوکِ سناں سے چٹکیں، غنچے کٹ کے شگفتہ ہُوئے
کاش یہ فصلِ خُونِ بہاراں اور نہ کھینچے طُول یہاں
شاید آج بھی جاری ہے آدم کا سلسلۂ اُفتاد
تھی نہ وہاں جنّت بھی گوارا اور قبوُل ہے...
ابر و باراں ہی نہ تھے بحر کی یورش میں شریک
دکھ تو یہ ہے کہ ہے ملاح بھی سازش میں شریک
تا ہمیں ترکِ تعلق کا بہت رنج نہ ہو
آؤ تم کو بھی کریں ہم اِسی کوشش میں شریک
اک تو وہ جسم طلسمات کا گھر لگتا ہے
اس پہ ہے نیتِ خیاط بھی پوشش میں شریک
ساری خلقت چلی آتی ہے اُسے دیکھنے کو
کیا کرے دل بھی کہ دنیا ہے...
توڑتے ہیں کبھی بندھاتے ہیں
آس رکھیئے تو وہ تڑ پاتے ہیں
دوستی کر کے نبھانے کا ہو ڈھنگ
دوست سے دوست نکل آتے ہیں
دل کا بگڑا ہے سدھرتا مشکل
یوں تو بہتے اسے سمجھاتے ہیں
وقت بھی چارہ گری کرتا ہے
صبر والے جو یہ پھل کھاتے ہیں
کیا جدا آپ ہوئے ہم سے حسین
سخت بیمار ہوئے جاتے ہیں
وہ تو پتھر پہ بھی گزرے نہ خدا ہونے تک
جو سفر میں نے نہ ہونے سے کیا ، ہونے تک
زندگی! اس سے زیادہ تو نہیں عمر تری
بس کسی دوست کے ملنے سے جدا ہونے تک
ایک اِک سانس مری رہن تھی دِلدار کے پاس
نقدِ جاں بھی نہ رہا قرض ادا ہونے تک
مانگنا اپنے خدا سے بھی ہے دریوزہ گری
ہاتھ شل کیوں نہ ہوئے دستِ...
خود آپ اپنی نظر میں حقیر میں بھی نہ تھا
اس اعتبار سے اس کا اسیر میں بھی نہ تھا
بنا بنا کے بہت اُس نے جی سے باتیں کیں
میں جانتا تھا مگر حرف گیر میں بھی نہ تھا
نبھا رہا ہے یہی وصفِ دوستی شاید
وہ بے مثال نہ تھا بے نظیر میں بھی نہ تھا
سفر طویل سہی گفتگو مزے کی رہی!
وہ خوش مزاج اگر تھا تو میر...
جب ملاقات بے ارادہ تھی
اس میں آسودگی زیادہ تھی
نہ توقع نہ انتظار نہ رنج
صبحِ ہجراں نہ شامِ وعدہ تھی
نہ تکلف نہ احتیاط نہ زعم
دوستی کی زبان سادہ تھی
جب بھی چاہا کہ گنگناؤں اسے
شاعری پیش پا فتادہ تھی
لعل سے لب چراغ سی آنکھیں
ناک ستواں جبیں کشادہ تھی
حدتِ جاں سے رنگ تانبا سا
ساغر افروز...
باوجود تلاش کے بھی مجھے احمد فراز کی یہ خوبصورت غزل محفل پہ نہیں ملی، لہٰذا حاضر ہے:
یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
فرازؔ تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی
یہ قرب کیا ہے کہ تُو سامنے ہے اور ہمیں
شمار ابھی سے جدائی کی ساعتیں کرنی
کوئی خدا ہو کہ پتھر جسے بھی ہم چاہیں
تمام عمر اُسی کی...
آنکھوں میں ستارے تو کئی شام سے اترے
پر دل کی اداسی نہ در و بام سے اترے
کچھ رنگ تو ابھرے تری گل پیرہنی کا
کچھ زنگ تو آئینہء ایام سے اترے
ہوتے رہے دل لمحہ بہ لمحہ تہہ و بالا
وہ زینہ بہ زینہ بڑے آرام سے اترے
جب تک ترے قدموں میں فروکش ہیں سبو کش
ساقی خطِ بادہ نہ لبِ جام سے اترے
بے طمع نوازش بھی...
جسم شعلہ ہے جبھی جامۂ سادہ پہنا
میرے سُورج نے بھی بادل کا لبادہ پہنا
سلوٹیں ہیں مرے چہرے پہ تو حیرت کیوں ہے
زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا
خواہشیں یوں ہی برہنہ ہوں تو جل بجھتی ہیں
اپنی چاہت کو کبھی کوئی ارادہ پہنا
یار خوش ہیں کہ انہیں جامۂ احرام ملا
لوگ ہنستے ہیں کہ قامت سے زیادہ پہنا...
ترا قرب تھا کہ فراق تھا وہی تیری جلوہ گری رہی
کہ جو روشنی ترے جسم کی تھی مرے بدن میں بھری رہی
ترے شہر میں چلا تھا جب تو کوئی بھی ساتھ نہ تھا مرے
تو میں کس سے محوِ کلام تھا؟ تو یہ کس کی ہمسفری رہی؟
مجھے اپنے آپ پہ مان تھا کہ نہ جب تلک ترا دھیان تھا
تو مثال تھی مری آگہی تو کمال بے خبری رہی...
تُو کہ شمعِ شامِ فراق ہے دلِ نامراد سنبھل کے رو
یہ کسی کی بزمِ نشاط ہے یہاں قطرہ قطرہ پگھل کے رو
کوئی آشنا ہو کہ غیر ہو نہ کسی سے حال بیان کر
یہ کٹھور لوگوں کا شہر ہے کہیں دُور پار نکل کے رو
کسے کیا پڑی سرِ انجمن کہ سُنے وہ تیری کہانیاں
جہاں کوئی تجھ سے بچھڑ گیا اُسی رہگزار پہ چل کے رو
یہاں...
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
محمدصفدر
ادب برائے ادب کہ ادب برائے زندگی، دونوں مفروضے مکمل طور پر درست ہیں نامکمل طور پر غلط ۔ ادب کی ذمہ داری اخلاقی محاسن کا پیدا کرنا ہے نہ ہی ادب زندگی کے اس رُخ سے منہ پھیر سکتا ہے ۔ادیب خلا میں رہتا ہے اور نہ خیال آسمان سے وارد ہوتا ہے ۔ زندگی کا...
السلام علیکم!
احمد فراز کی نظمیں
ٹائپنگ کا تیسرا زینہ
"نایافت" سے انتخاب
استادِ محترم الف عین صاحب
فاتح بھائی
قیصرانی بھائی
مقدس آپی
نوٹ: تبصرہ جات کے لئے یہ دھاگہ استعمال کیا جائے۔