احمد مشتاق

  1. فرخ منظور

    احمد مشتاق چھٹ گیا ابر شفق کھل گئی تارے نکلے

    چھٹ گیا ابر شفق کھل گئی تارے نکلے بند کمروں سے ترے درد کے مارے نکلے شاخ پر پنکھڑیاں ہوں کہ پلک پر آنسو تیرے دامن کی جھلک دیکھ کے سارے نکلے تو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے تیرے ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے تیرے ہونٹوں میری آنکھوں سے نہ بدلی دنیا پھر وہی پھول کھلے پھر وہی تارے نکلے...
  2. عاطف ملک

    ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو (احمد مشتاق)

    ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو یہ نیا کھیل ملا ہے مِری تنہائی کو تھا جو سینے میں چراغِ دلِ پُرخوں نہ رہا چاٹیے بیٹھ کے اب صبر و شکیبائی کو دلِ افسردہ کسی طرح بہلتا ہی نہیں کیا کریں آپ کی اس حوصلہ افزائی کو خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے، لیکن تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو نگہِ...
  3. سیما علی

    احمد مشتاق کہاں کی گونج دل ناتواں میں رہتی ہے

    کہاں کی گونج دل ناتواں میں رہتی ہے کہ تھرتھری سی عجب جسم و جاں میں رہتی ہے قدم قدم پہ وہی چشم و لب وہی گیسو تمام عمر نظر امتحاں میں رہتی ہے مزہ تو یہ ہے کہ وہ خود تو ہے نئے گھر میں اور اس کی یاد پرانے مکاں میں رہتی ہے پتہ تو فصل گل و لالہ کا نہیں معلوم سنا ہے قرب و جوار خزاں میں رہتی ہے میں...
  4. طارق شاہ

    احمد مشتاق ::::::اُداس کر کے دَرِیچے نئے مکانوں کے:::::: Ahmed Mushtaq

    غزل اُداس کر کے دَرِیچے نئے مکانوں کے سِتارے ڈُوب گئے سبز آسمانوں کے گئی وہ شب، جو کبھی ختم ہی نہ ہوتی تھی ہوائیں لے گئیں اَوراق داستانوں کے ہر آن برق چمکتی ہے، دِل دھڑکتا ہے مِری قمیص پہ تِنکے ہیں آشیانوں کے تِرے سکُوت سے وہ راز بھی ہُوئے افشا کہ جِن کو کان ترستے تھے راز دانوں کے یہ بات...
  5. کاشفی

    احمد مشتاق اب وہ گلیاں وہ مکاں یاد نہیں - احمد مشتاق

    غزل (احمد مشتاق) اب وہ گلیاں وہ مکاں یاد نہیں کون رہتا تھا کہاں یاد نہیں جلوہء حسن ازل تھے وہ دیار جن کے اب نام و نشاں یاد نہیں کوئی اجلا سا بھلا سے گھر تھا کس کو دیکھا تھا وہاں یاد نہیں یاد ہے زینہء پیچاں اس کا در و دیوار مکاں یاد نہیں یاد ہے زمزمہء ساز بہار شور آواز خزاں یاد نہیں
  6. فرخ منظور

    احمد مشتاق ان موسموں میں ناچتے گاتے رہیں گے ہم ۔ احمد مشتاق

    ان موسموں میں ناچتے گاتے رہیں گے ہم ہنستے رہیں گے شور مچاتے رہیں گے ہم لب سوکھ کیوں نہ جائیں گلا بیٹھ کیوں نہ جائے دل میں ہیں جو سوال اٹھاتے رہیں گے ہم اپنی رہِ سلوک میں چپ رہنا منع ہے چپ رہ گئے تو جان سے جاتے رہیں گے ہم نکلے تو اس طرح کہ دکھائی نہیں دیے ڈوبے تو دیر تک نظر آتے رہیں گے ہم دکھ...
  7. فرخ منظور

    احمد مشتاق شامِ غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں ۔ احمد مشتاق

    شامِ غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں کب وہ رخصت ہوئے کب رات ڈھلی یاد نہیں دل سے بہتے ہوئے پانی کی صدا گزری تھی کب دھندلکا ہوا کب ناؤ چلی یاد نہیں ٹھنڈے موسم میں پکارا کوئی ہم آتے ہیں جس میں ہم کھیل رہے تھے وہ گلی یاد نہیں ان مضافات میں چھپ چھپ کے ہوا چلتی تھی کیسے کِھلتی تھی محبت کی کلی یاد...
  8. فرخ منظور

    احمد مشتاق اشک دامن میں بھرے خواب کمر پر رکھا ۔ احمد مشتاق

    اشک دامن میں بھرے خواب کمر پر رکھا پھر قدم ہم نے تری راہ گزر پر رکھا ہم نے ایک ہاتھ سے تھاما شبِ غم کا آنچل اور اک ہاتھ کو دامانِ سحر پر رکھا چلتے چلتے جو تھکے پاؤں تو ہم بیٹھ گئے نیند گٹھری پہ دھری خواب شجر پر رکھا جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ مدتوں دھیان ترے سایۂ در پر رکھا جاتے...
  9. چوہدری لیاقت علی

    احمد مشتاق نئی کتاب اوراق خزانی سے ایک نظم

    گھاس پر تتلیاں ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح بکھری ہیں
  10. چوہدری لیاقت علی

    احمد مشتاق وہی شاخ نہال ہستی ہے۔ نئی کتاب سے ایک انتخاب

    وہی شاخ نہال ہستی ہے وہی دکھ کی دراز دستی ہے ہوش کو چشم کم سے نہ دیکھ ہوش تو انتہائے مستی ہے دل میں پھرتی ہے دھوپ سارا دن رات بھر چاندنی برستی ہے ہمہ تن گوش ہے نظر میری تیری آواز کو ترستی ہے کیسی ناگن ہے یہ اداسی بھی بھری محفل میں آ کے ڈستی ہے فکر خلق خدا نہ خوف خدا یہ کہاں کی خدا پرستی ہے...
  11. چوہدری لیاقت علی

    احمد مشتاق اوراق خزانی کی پہلی غزل: بھاگنے کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے

    مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ اس وقت احمد مشتاق سے بہتر غزل گو شاعر نہیں۔ ان کی نئی کتاب 'اوراق خزانی' جو ریختہ فاؤنڈیشن نے چھاپی ہے، محترم عزیز نبیل (جو خود بھی لا جواب شاعر ہیں) کے توسط سے ملی۔اس کتاب کی پہلی غزل آپ سب کے لیئے: بھاگنے کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے کوئی در کوئی دریچہ نہیں...
  12. طارق شاہ

    احمد مشتاق :::: نہیں زخم دل اب دکھانے کے قابل -- Ahmed Mushtaq

    غزلِ احمد مشتاق نہیں زخمِ دل اب دِکھانے کے قابل یہ ناسُور ہے بس چُھپانے کے قابل تِرے رُو برُو آؤں کِس منہ سے پیارے نہیں اب رہا منہ دِکھانے کے قابل وفورِ غم و یاس نے ایسا گھیرا نہ چُھوڑا، کہیں آنے جانے کے قابل شبِ ہجر کی تلخِیاں کچُھ نہ پُوچھو نہیں داستاں یہ، سُنانے کے قابل یہ،...
  13. محمداحمد

    احمد مشتاق غزل ۔ خود چل کے قریب آ گیا تھا ۔ احمد مشتاق

    غزل خود چل کے قریب آ گیا تھا میں دُور سے جس کو دیکھتا تھا گزری ہوئی بُلبُلوں کا سایہ اک شاخِ گلاب پر پڑا تھا سبزہ ہو مراقبے میں گویا خاموش تھا اور جُھکا ہوا تھا بیٹھا تھا کوئی مِرے مقابل اور آپ سے آپ ہنس رہا تھا دِل صبح سے مضطرب ہے میرا یہ خواب اگر نہ تھا تو کیا تھا احمد مشتاق
  14. فرخ منظور

    احمد مشتاق یہ ہم جو غزل میں حرف و بیاں بناتے ہیں ۔ احمد مشتاق

    یہ ہم غزل میں جو حرف و بیاں بناتے ہیں ہوائے غم کے لیے کھڑکیاں بناتے ہیں انہیں بھی دیکھ کبھی اے نگارِ شامِ بہار جو ایک رنگ سے تصویرِ جاں بناتے ہیں نگاہِ ناز کچھ ان کی بھی ہے خبر تجھ کو؟ جو دھوپ میں ہیں مگر بدلیاں بناتے ہیں ہمارا کیا ہے جو ہوتا ہے جی اداس بہت تو گل تراشتے ہیں، تتلیاں بناتے...
  15. فرخ منظور

    احمد مشتاق غزل : کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں ۔از: احمد مشتاقؔ

    غزل کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں ابھی کچھ وقت لگے گا اسے سمجھانے میں موسمِ گل ہو کہ پت چھڑ ہو بلا سے اپنی ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں ہم سے مخفی نہیں کچھ راہگزرِ شوق کا حال ہم نے اک عمر گزاری ہے ہوا خانے میں ہے یوں ہی گھومتے رہنے کا مزا ہی کچھ اور ایسی لذّت نہ...
  16. محمداحمد

    غزل - نین کُھلتے نہ تھے، نیند آتی نہ تھی، رات آہستہ آہستہ ڈھلتی رہی - احمد مشتاق

    غزل نین کُھلتے نہ تھے، نیند آتی نہ تھی، رات آہستہ آہستہ ڈھلتی رہی سارے اوراقِ غم منتشر ہوگئے، دیر تک دل میں آندھی سی چلتی رہی گھاس تھی جگنوؤں کو چُھپائے ہوئے، پیڑ تھے تیرگی میں نہائے ہوئے ایک کونے میں سر کو جھکائے ہوئے درد کی شمع افسردہ جلتی رہی پہلا دن تھا محبت کی برسات کا، وقت...
  17. فرخ منظور

    احمد مشتاق کہوں کس سے رات کا ماجرا نئے منظروں پہ نگاہ تھی ۔ احمد مشتاق

    کہوں کس سے رات کا ماجرا، نئے منظروں پہ نگاہ تھی نہ کسی کا دامن چاک تھا، نہ کسی کی طرف کلاہ تھی کئی چاند تھے سرِ آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا، نہ تمہاری زلف سیاہ تھی دلِ کم الم پہ وہ کیفیت کہ ٹھہر سکے نہ گذر سکے نہ حضر ہی راحتِ روح تھا، نہ سفر میں رامشِ راہ تھی مرے...
  18. الف عین

    احمد مشتاق دلوں کی اور دھواں سا دکھائی دیتا ہے۔۔ احمد مشتاق

    دلوں کی اور دھواں سا دکھائی دیتا ہے یہ شہر تو مجھے جلتا دکھائی دیتا ہے جہاں کہ داغ ہے، یاں آگے درد رہتا تھا مگر یہ داغ بھی جاتا دکھائی دیتا ہے پکارتی ہیں بھرے شہر کی گزر گاہیں وہ روز شام کو تنہا دکھائی دیتا ہے یہ لوگ توٹی ہوئی کشتیوں میں سوتے ہیں مرے مکان سے دریا دکھائی دیتا ہے...
  19. الف عین

    احمد مشتاق ہر لمحہ ظلمتوں کی جدائی کا وقت ہے۔ احمد مشتاق

    ہر لمحہ ظلمتوں کی جدائی کا وقت ہے شاید کسی کی چہرہ نمائی کا وقت ہے کہتی ہے ساحلوں سے یہ جاتے سمے کی دھوپ ہشیار، ندیوں کی چڑھائی کا وقت ہے کوئی بھی وقت ہو، کبھی ہوتا نہیں جدا کتنا عزیز اس کو جدائی کا وقت ہے دل نے کہا کہ شامِ شبِ وصل سے نہ بھاگ اب پک چکی ہے فصل، کٹائی کا وقت ہے...
  20. الف عین

    احمد مشتاق خواب کے پھولوں کی تعبیریں پرانی ہو گئیں۔ احمد مشتاق

    خواب کے پھولوں کی تعبیریں پرانی ہو گئیں خون ٹھنڈا پڑ گیا، آنکھیں پرانی ہو گئیں جس کا چہرہ تھا چمکتے موسموں کی آرزو اس کی تصویریں بھی اوراقِ خزانی ہو گئیں دل بھر آیا کاغذ خالی کی صورت کو دیکھ کر جن کو کہنا تھا وہ سب باتیں زبانی ہو گئیں جو مقدر میں تھا اس کو روکنا تو بس میں نہ تھا ان...
Top