چھٹ گیا ابر شفق کھل گئی تارے نکلے
بند کمروں سے ترے درد کے مارے نکلے
شاخ پر پنکھڑیاں ہوں کہ پلک پر آنسو
تیرے دامن کی جھلک دیکھ کے سارے نکلے
تو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے
تیرے ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے
تیرے ہونٹوں میری آنکھوں سے نہ بدلی دنیا
پھر وہی پھول کھلے پھر وہی تارے نکلے...
ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو
یہ نیا کھیل ملا ہے مِری تنہائی کو
تھا جو سینے میں چراغِ دلِ پُرخوں نہ رہا
چاٹیے بیٹھ کے اب صبر و شکیبائی کو
دلِ افسردہ کسی طرح بہلتا ہی نہیں
کیا کریں آپ کی اس حوصلہ افزائی کو
خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے، لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو
نگہِ...
کہاں کی گونج دل ناتواں میں رہتی ہے
کہ تھرتھری سی عجب جسم و جاں میں رہتی ہے
قدم قدم پہ وہی چشم و لب وہی گیسو
تمام عمر نظر امتحاں میں رہتی ہے
مزہ تو یہ ہے کہ وہ خود تو ہے نئے گھر میں
اور اس کی یاد پرانے مکاں میں رہتی ہے
پتہ تو فصل گل و لالہ کا نہیں معلوم
سنا ہے قرب و جوار خزاں میں رہتی ہے
میں...
غزل
اُداس کر کے دَرِیچے نئے مکانوں کے
سِتارے ڈُوب گئے سبز آسمانوں کے
گئی وہ شب، جو کبھی ختم ہی نہ ہوتی تھی
ہوائیں لے گئیں اَوراق داستانوں کے
ہر آن برق چمکتی ہے، دِل دھڑکتا ہے
مِری قمیص پہ تِنکے ہیں آشیانوں کے
تِرے سکُوت سے وہ راز بھی ہُوئے افشا
کہ جِن کو کان ترستے تھے راز دانوں کے
یہ بات...
غزل
(احمد مشتاق)
اب وہ گلیاں وہ مکاں یاد نہیں
کون رہتا تھا کہاں یاد نہیں
جلوہء حسن ازل تھے وہ دیار
جن کے اب نام و نشاں یاد نہیں
کوئی اجلا سا بھلا سے گھر تھا
کس کو دیکھا تھا وہاں یاد نہیں
یاد ہے زینہء پیچاں اس کا
در و دیوار مکاں یاد نہیں
یاد ہے زمزمہء ساز بہار
شور آواز خزاں یاد نہیں
ان موسموں میں ناچتے گاتے رہیں گے ہم
ہنستے رہیں گے شور مچاتے رہیں گے ہم
لب سوکھ کیوں نہ جائیں گلا بیٹھ کیوں نہ جائے
دل میں ہیں جو سوال اٹھاتے رہیں گے ہم
اپنی رہِ سلوک میں چپ رہنا منع ہے
چپ رہ گئے تو جان سے جاتے رہیں گے ہم
نکلے تو اس طرح کہ دکھائی نہیں دیے
ڈوبے تو دیر تک نظر آتے رہیں گے ہم
دکھ...
شامِ غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں
کب وہ رخصت ہوئے کب رات ڈھلی یاد نہیں
دل سے بہتے ہوئے پانی کی صدا گزری تھی
کب دھندلکا ہوا کب ناؤ چلی یاد نہیں
ٹھنڈے موسم میں پکارا کوئی ہم آتے ہیں
جس میں ہم کھیل رہے تھے وہ گلی یاد نہیں
ان مضافات میں چھپ چھپ کے ہوا چلتی تھی
کیسے کِھلتی تھی محبت کی کلی یاد...
اشک دامن میں بھرے خواب کمر پر رکھا
پھر قدم ہم نے تری راہ گزر پر رکھا
ہم نے ایک ہاتھ سے تھاما شبِ غم کا آنچل
اور اک ہاتھ کو دامانِ سحر پر رکھا
چلتے چلتے جو تھکے پاؤں تو ہم بیٹھ گئے
نیند گٹھری پہ دھری خواب شجر پر رکھا
جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ
مدتوں دھیان ترے سایۂ در پر رکھا
جاتے...
وہی شاخ نہال ہستی ہے
وہی دکھ کی دراز دستی ہے
ہوش کو چشم کم سے نہ دیکھ
ہوش تو انتہائے مستی ہے
دل میں پھرتی ہے دھوپ سارا دن
رات بھر چاندنی برستی ہے
ہمہ تن گوش ہے نظر میری
تیری آواز کو ترستی ہے
کیسی ناگن ہے یہ اداسی بھی
بھری محفل میں آ کے ڈستی ہے
فکر خلق خدا نہ خوف خدا
یہ کہاں کی خدا پرستی ہے...
مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ اس وقت احمد مشتاق سے بہتر غزل گو شاعر نہیں۔ ان کی نئی کتاب 'اوراق خزانی' جو ریختہ فاؤنڈیشن نے چھاپی ہے، محترم عزیز نبیل (جو خود بھی لا جواب شاعر ہیں) کے توسط سے ملی۔اس کتاب کی پہلی غزل آپ سب کے لیئے:
بھاگنے کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے
کوئی در کوئی دریچہ نہیں...
غزلِ
احمد مشتاق
نہیں زخمِ دل اب دِکھانے کے قابل
یہ ناسُور ہے بس چُھپانے کے قابل
تِرے رُو برُو آؤں کِس منہ سے پیارے
نہیں اب رہا منہ دِکھانے کے قابل
وفورِ غم و یاس نے ایسا گھیرا
نہ چُھوڑا، کہیں آنے جانے کے قابل
شبِ ہجر کی تلخِیاں کچُھ نہ پُوچھو
نہیں داستاں یہ، سُنانے کے قابل
یہ،...
غزل
خود چل کے قریب آ گیا تھا
میں دُور سے جس کو دیکھتا تھا
گزری ہوئی بُلبُلوں کا سایہ
اک شاخِ گلاب پر پڑا تھا
سبزہ ہو مراقبے میں گویا
خاموش تھا اور جُھکا ہوا تھا
بیٹھا تھا کوئی مِرے مقابل
اور آپ سے آپ ہنس رہا تھا
دِل صبح سے مضطرب ہے میرا
یہ خواب اگر نہ تھا تو کیا تھا
احمد مشتاق
یہ ہم غزل میں جو حرف و بیاں بناتے ہیں
ہوائے غم کے لیے کھڑکیاں بناتے ہیں
انہیں بھی دیکھ کبھی اے نگارِ شامِ بہار
جو ایک رنگ سے تصویرِ جاں بناتے ہیں
نگاہِ ناز کچھ ان کی بھی ہے خبر تجھ کو؟
جو دھوپ میں ہیں مگر بدلیاں بناتے ہیں
ہمارا کیا ہے جو ہوتا ہے جی اداس بہت
تو گل تراشتے ہیں، تتلیاں بناتے...
غزل
کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں
ابھی کچھ وقت لگے گا اسے سمجھانے میں
موسمِ گل ہو کہ پت چھڑ ہو بلا سے اپنی
ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں
ہم سے مخفی نہیں کچھ راہگزرِ شوق کا حال
ہم نے اک عمر گزاری ہے ہوا خانے میں
ہے یوں ہی گھومتے رہنے کا مزا ہی کچھ اور
ایسی لذّت نہ...
غزل
نین کُھلتے نہ تھے، نیند آتی نہ تھی، رات آہستہ آہستہ ڈھلتی رہی
سارے اوراقِ غم منتشر ہوگئے، دیر تک دل میں آندھی سی چلتی رہی
گھاس تھی جگنوؤں کو چُھپائے ہوئے، پیڑ تھے تیرگی میں نہائے ہوئے
ایک کونے میں سر کو جھکائے ہوئے درد کی شمع افسردہ جلتی رہی
پہلا دن تھا محبت کی برسات کا، وقت...
کہوں کس سے رات کا ماجرا، نئے منظروں پہ نگاہ تھی
نہ کسی کا دامن چاک تھا، نہ کسی کی طرف کلاہ تھی
کئی چاند تھے سرِ آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا، نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
دلِ کم الم پہ وہ کیفیت کہ ٹھہر سکے نہ گذر سکے
نہ حضر ہی راحتِ روح تھا، نہ سفر میں رامشِ راہ تھی
مرے...
دلوں کی اور دھواں سا دکھائی دیتا ہے
یہ شہر تو مجھے جلتا دکھائی دیتا ہے
جہاں کہ داغ ہے، یاں آگے درد رہتا تھا
مگر یہ داغ بھی جاتا دکھائی دیتا ہے
پکارتی ہیں بھرے شہر کی گزر گاہیں
وہ روز شام کو تنہا دکھائی دیتا ہے
یہ لوگ توٹی ہوئی کشتیوں میں سوتے ہیں
مرے مکان سے دریا دکھائی دیتا ہے...
ہر لمحہ ظلمتوں کی جدائی کا وقت ہے
شاید کسی کی چہرہ نمائی کا وقت ہے
کہتی ہے ساحلوں سے یہ جاتے سمے کی دھوپ
ہشیار، ندیوں کی چڑھائی کا وقت ہے
کوئی بھی وقت ہو، کبھی ہوتا نہیں جدا
کتنا عزیز اس کو جدائی کا وقت ہے
دل نے کہا کہ شامِ شبِ وصل سے نہ بھاگ
اب پک چکی ہے فصل، کٹائی کا وقت ہے...
خواب کے پھولوں کی تعبیریں پرانی ہو گئیں
خون ٹھنڈا پڑ گیا، آنکھیں پرانی ہو گئیں
جس کا چہرہ تھا چمکتے موسموں کی آرزو
اس کی تصویریں بھی اوراقِ خزانی ہو گئیں
دل بھر آیا کاغذ خالی کی صورت کو دیکھ کر
جن کو کہنا تھا وہ سب باتیں زبانی ہو گئیں
جو مقدر میں تھا اس کو روکنا تو بس میں نہ تھا
ان...