کہاں کی گونج دلِ ناتواں میں رہتی ہے
کہ تھرتھری سی عجب جسم و جاں میں رہتی ہے
مزہ تو یہ ہے کہ وہ خود تو ہے نئے گھر میں
اور اس کی یاد پرانے مکاں میں رہتی ہے
اگرچہ اس سے مری بے تکلفی ہے بہت
جھجک سی ایک مگر درمیاں میں رہتی ہے
پتہ تو فصل گل و لالہ کا نہیں معلوم
سنا ہے قرب و جوارِ خزاں میں...
غزل
خیر اوروں نے بھی چاہا تو ہے تجھ سا ہونا
یہ الگ بات کہ ممکن نہیں ایسا ہونا
دیکھتا اور نہ ٹھہرتا تو کوئی بات بھی تھی
جس نے دیکھا ہی نہیں اس سے خفا کیا ہونا
تجھ سے دوری میں بھی خوش رہتا ہوں پہلے کی طرح
بس کسی وقت برا لگتا ہے تنہا ہونا
یوں مری یاد میں محفوظ ہیں ترے خد و خال
جس طرح دل میں...
احمد مشتاق کو سمجھنے کی پہلی کوشش
(نوید صادق)
کلاسیکیت (Classicism) حسن، خیر اور توازن سے عبارت تھی اور تخلیقی زندگی اسی ڈھرّے پر چلتی تھی لیکن بدصورتی، شر اور عدم توازن، انسانی زندگی کی تہہ میں زیریں لہر کے طور پر ہمیشہ بیدار رہے ۔اٹھارویں صدی کے وسط میں فرانس، انگلستان اور جرمنی میں سیاسی،...
غزل
یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا
درخت کاٹ لئے سائبان بیچ دیا
دری لپیٹ کے رکھ دی بساط الٹ ڈالی
چراغ توڑ دئے شمع دان بیچ دیا
خزاں کے ہاتھ خزاں کے نیاز مندوں نے
نوائے موسمِ گل کا نشان بیچ دیا
اٹھا جو شور تو اہلِ ہوس نے گھبرا کر
زمین لیز پہ دے دی، کسان بیچ دیا
یہی ہے بھوک...
غزل
تھا مجھ سے ہم کلام مگر دیکھنے میں تھا
جانے وہ کس خیال میں تھا، کس سمے میں تھا
کیسے مکاں اجاڑ ہوا، کس سے پوچھتے
چولھے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑے میں تھا
تا صبح برگ و شاخ و شجر جھومتے رہے
کل شب بلا کا سوز ہمارے گلے میں تھا
نیندوں میں پھر رہا ہوں اسے ڈھونڈتا ہوا
شامل جو ایک خواب...
غزل
وابستہ ہیں اس جہان سے ہم
آئے نہیں آسمان سے ہم
دکھ درد ہے ذکر و فکر اپنا
کہتے نہیں کچھ زبان سے ہم
اس جوشِ نمو سے لگ رہا ہے
اترے نہیں اس کے دھیان سے ہم
کمروں میں اجنبی مکیں تھے
کچھ کہہ نہ سکے مکان سے ہم
محفل تو جمی رہے گی مشتاق
اٹھ جائیں گے درمیان سے ہم
(احمد مشتاق)
غزل
کہاں ڈھونڈیں اسے کیسے بلائیں
یہاں اپنی بھی آوازیں نہ آئیں
پرانا چاند ڈوبا جا رہا ہے
وہ اب کوئی نیا جادو جگائیں
اب ایسا ہی زمانہ آ رہا ہے
عجب کیا وہ تو آئیں، ہم نہ آئیں
ہوا چلتی ہے پچھلے موسموں کی
صدا آتی ہے ان کو بھول جائیں
بس اب لے دے کے ہے ترکِ تعلق
یہ نسخہ بھی کوئی دن...
غزل
یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں
اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں
خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں
گھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں
یہ رستے رہرووں سے بھاگتے ہیں
یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
جو غم جلتے ہیں شعروں کی چتا میں...
غزل
نکلے تھے کسی مکان سے ہم
روٹھے رہے اک جہان سے ہم
بدنامیاں دل سے آنکھ تک تھیں
رسوا نہ ہوئے زبان سے ہم
ہے تنگ جہانِ بود و نابود
اترے ہیں کسی آسمان سے ہم
پھولوں میں بکھر گئے تھے رستے
گزرے نہیں درمیان سے ہم
جو شان تھی ملتے وقت مشتاق
بچھڑے اسی آن بان سے ہم
شاعر: احمد مشتاق
غزل
چاند بھی نکلا، ستارے بھی برابر نکلے
مجھ سے اچھے تو شبِ غم کے مقدر نکلے
شام ہوتے ہی برسنے لگے کالے بادل
صبح دم لوگ دریچوں میں کھلے سر نکلے
کل ہی جن کو تری پلکوں پہ کہیں دیکھا تھا
رات اسی طرح کے تارے مری چھت پر نکلے
دھوپ ساون کی بہت تیز ہے دل ڈرتا ے
اس سے کہہ دو کہ ابھی گھر سے...
غزل
دل میں شور برابر ہے
کون اس گھر کے اندرہے
عشق میں کوئی وقت نہیں
دن اور رات برابر ہے
دل پر کوئ بوجھ نہیں
یعنی آپ ہی پتھر ہے
باہر خوب ہنسو، بولو
رونے دھونے کو گھر ہے
دکھ کی مسلیں چار طرف
دل بھی میرا دفتر ہے
ترکِ عشق سے جی کا حال
پہلے سے کچھ بہتر ہے
ختم ہوا سب کاروبار...
مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول، کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جُگ بیت گئے
عشق میں وقت کا...