اختر عثمان

  1. فرحان محمد خان

    غزل:ساحل سے واپس ہو لیے سارے صدف رستہ نہ تھا-اختر عثمان

    غزل ساحل سے واپس ہو لیے سارے صدف رستہ نہ تھا گم ہو گئے گرداب میں گوہر بکف رستہ نہ تھا رکھی تھی اک سل راہ میں ہستی کا حاصل راہ میں آنکھیں تھیں حائل راہ میں دل کی طرف رستہ نہ تھا خاموش تھے اہلِ سخن چپ چاپ تھا پتوں کا بن کیسی لگن کیسی چبن کیسا شرف رستہ نہ تھا زخموں سے رِستا تھا لہو آساں نہ...
  2. فرحان محمد خان

    غزل : سرِ بامِ تمنا مشعلِ مژگاں جلا بیٹھے - اختر عثمان

    غزل سرِ بامِ تمنا مشعلِ مژگاں جلا بیٹھے ڈھلی جب شام تو تنہائی کی ٹہنی پہ جا بیٹھے خماری بھی ہے اور بادِ بہاری بھی سرِ صحرا اور اس لمحے عروسِ گُل اگر پہلو میں آ بیٹھے مُبادا خلوتِ خوشبو کا شیرازہ بکھر جائے گلوں پر بے نیازانہ بہ اندازِ صبا بیٹھے ازل سے آمد و شُد کا یہ کارِ دہر ہے جاری...
  3. فرحان محمد خان

    غزل : تجھ پر مری رسوائی کا الزام تو ہے نا - اختر عثمان

    غزل تجھ پر مری رسوائی کا الزام تو ہے نا دل توڑنے والوں میں ترا نام تو ہے نا کہتے ہیں اداسی کا سبب کوئی تو ہوگا کچھ بھی نہ ہو اک سلسلۂ شام تو ہے نا یونہی تو نہیں رہتیں افق پر مری آنکھیں وہ ماہِ ہنر تاب سرِبام تو ہے نا میں کوئی قلندر ہوں کہ تقدیر پہ چھوڑوں درپے ہے اگر گرشِ ایام تو ہے نا میں...
  4. فرحان محمد خان

    غزل:بھنور، برہم ہوائیں، گم کنارا، کیا بنے گا- اختر عثمان

    غزل بھنور، برہم ہوائیں، گم کنارا، کیا بنے گا دریدہ بادباں اپنا سہارا کیا بنے گا بڑوں پر منکشف تھی سہل انگاری ہماری ہمیں اجداد کہتے تھے ، تمہارا کیا بنے گا ابھی سے خال و خد روشن ہوئے جاتے ہیں اس کے کبھی جو چاک پر آیا تو گارا کیا بنے گا حِرائے ذہن میں اُترا ہے جبریلِ تخیل بتاتا ہے کہ آئندہ...
  5. فرحان محمد خان

    غزل:خیرات ، بجز حسّنِ مودّت نہیں مانگی - اختر عثمان

    غزل خیرات ، بجز حسّنِ مودّت نہیں مانگی اللہ کے مزدور ہیں ، اُجرت نہیں مانگی اک بار سرِ دشت اُٹھا ہاتھ ہمارا پھر ہم سے کسی شخص نے بیعت نہیں مانگی بس اُس کی اطاعت میں رہے آخری دم تک ہم نے کبھی اقرار کی مہلت نہیں مانگی اللہ نے بخشا ہے ہمیں آیۂ تطہیر دُنیا کے ذلیلوں سے عزّت نہیں مانگی سچ...
  6. فرحان محمد خان

    غزل :ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ غم کچھ نہیں کہتے - اختر عثمان

    غزل ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ غم کچھ نہیں کہتے یوں ہے کہ ترے سامنے ہم کچھ نہیں کہتے واپس چلے آتے ہیں یونہی دامنِ دل تک کچھ اشک سرِ دیدۂ نم کچھ نہیں کہتے میں شام سے تا صبح جو پھرتا ہوں بھنور سا اِس باب میں اربابِ کرم کچھ نہیں کہتے اپنے لیے اِک درجہ بنا رکھا ہے ہم نے میعار ہے، میعار سے کم کچھ نہیں...
  7. فرحان محمد خان

    غزل : نشاط اور اُداسی نہیں ہے کم سے کم - اختر عثمان

    غزل نشاط اور اُداسی نہیں ہے کم سے کم ہماری آنکھ میں کچھ تیرتا ہے نم سے کم بہت بھنور بنے دریا میں جو سہار لیے یہ زندگی کا تلاطم ہے ایک غم سے کم شروع میں ہوا ہو گا وہ قیس نام کا شخص ہمارے بعد کوئی ہے اگر تو ہم سے کم جلے چراغ کی لو پر دھرا ہوا ہے ہاتھ یہ راز قدر سے زائد ہے اور قسم سے کم...
  8. فرحان محمد خان

    غزل : جبر کی کوئی نہایت نہیں چھوڑی تم نے - اختر عثمان

    غزل جبر کی کوئی نہایت نہیں چھوڑی تم نے ایک شے حسبِ ہدایت نہیں چھوڑی تم نے واہ کیا پاس تمہیں نسبتِ اجداد کا ہے گھر جلانے کی روایت نہیں چھوڑی تم نے سوختہ روح ، بُجھے خواب ، شکستہ اعصاب کیوں کہوں کوئی عنایت نہیں چھوڑی تم نے شعر انسان سے گفتار ہے اخترؔ صاحب یہ ولایت ہے ولایت نہیں چھوڑی تم نے...
  9. فرحان محمد خان

    غزل : دھب ہے ، کہنے سے یہ سب تھوڑی ہوتا ہے - اختر عثمان

    غزل دھب ہے ، کہنے سے یہ سب تھوڑی ہوتا ہے بیٹھے رہنے سے یہ سب تھوڑی ہوتا ہے یوں ہو تو ہر کسبی انت سہاگن ٹھہرے گجرے ، گہنے سے یہ سب تھوڑی ہوتا ہے کچھ کچھ بات کرو ، جی بہلے ، سکتہ ٹوٹے چپ چپ سہنے سے یہ سب تھوڑی ہوتا ہے جینا ہے تو جی کی جولا جل میں پھینکو بھتیرے بہنے سے یہ سب تھوڑی ہوتا ہے...
  10. فرحان محمد خان

    غزل : اک ہنر دیدۂ خوش آب میں رکھا ہم نے - اختر عثمان

    غزل اک ہنر دیدۂ خوش آب میں رکھا ہم نے آنسوؤں کو حدِ آداب میں رکھا ہم نے پھر لہو میں ہے کوئی ذائقۂ بت شکنی اتنے دن تک تجھے محراب میں رکھا ہم نے تڑ تڑانے لگا بپھرے ہوئے تاروں کا جلوس پاؤں کیا خیمۂ مہتاب میں رکھا ہم نے یار سمجھے کہ وہی بے سر و سامانی ہے اک ترا دھیان ہی اسباب میں رکھا ہم...
  11. فرحان محمد خان

    غزل : سایہ کوئی ، گمان کوئی ، کوئی چھب تو ہو - اختر عثمان

    غزل سایہ کوئی ، گمان کوئی ، کوئی چھب تو ہو میں اُس کو مانتا ہوں مگر ایک رب تو ہو مصرعوں سے جھانکتی ہوئی خوابوں کی تُند موج سہنے کی بات اور ہے کہنے کا ڈھب تو ہو تم خون میں نہیں تھے تو خاموش تھا یہ دل کوئی صدا تمہاری طرف سے کہ اب تو ہو اٹھ بھی چکو کے نصرتِ شبیر کے لیے اب کس کا انتطار ہے تم...
  12. فرحان محمد خان

    غزل : کہاں یہ خون میں لَت پَت کمان سُوکھتی ہے - اختر عثمان

    غزل کہاں یہ خون میں لَت پَت کمان سُوکھتی ہے جو دیکھتے ہی پرندوں کی جان سُوکھتی ہے مجھ ایسا شخص اگر تشنگیِ اہلِ وفا رقم کرے تو قلم کی زبان سُوکھتی ہے تری نگہ کی نمی مجھ تک آئے بھی کیسے ! ہَوا کی سانس کہیں درمیان سُوکھتی ہے چمک دمک ہے ، مہک ہے مری ذرا کی ذرا لہو کی لہر ہے ، سو کوئی آن...
  13. فرحان محمد خان

    غزل : جدائیوں کا اگر جی سے ڈر چلا جاتا - اختر عثمان

    غزل جدائیوں کا اگر جی سے ڈر چلا جاتا میں اُس کے ساتھ یونہی عمر بھر چلا جاتا شکن شکن جو مری روح میں بچھا ہے یہ درد خدا نکردہ اِدھر سے اُدھر چلا جاتا یہ زرد زرد ہیولے ، یہ مسخ مسخ نقوش کہاں سنورتے جو آئینہ گر چلا جاتا ملا جو ہوتا وہ گلگشت خواب کے دوران روش روش زرِ گل کا ہنر چلا جاتا سفال...
  14. فرحان محمد خان

    غزل:کوئی دیوار ہماری تھی نہ چھت اپنی تھی -اختر عثمان

    غزل کوئی دیوار ہماری تھی نہ چھت اپنی تھی اپنے سائے میں جیے ہم یہ سکت اپنی تھی تہ بہ تہ ہم نے قرینوں سے کیے تیرے سخن مستعاری نہ تھے ، ایک ایک جہت اپنی تھی اپنی آہستہ روی ہے کوئی واماندگی نئیں لہر اپنی تھی بَن اپنا تھا ، چلت اپنی تھی اب جو دیکھیں تو گلہ تک نہیں بنتا کہ دلا! فیصلے سارے...
  15. فرحان محمد خان

    غزل :جنوں شعار ہوں اُفتادگی تو ہے مجھ میں -اختر عثمان

    غزل جنوں شعار ہوں اُفتادگی تو ہے مجھ میں شروعِ عمر سے شہزادگی تو ہے مجھ میں اسیر ہو کے بھی وابستۂ تلوّن ہوں ہنر کہ عیب ہے آزادگی تو ہے مجھ میں تمہیں خوش آئے نہ آئے مرا نبھاؤ سبھاؤ کسی سبب سہی سجّادگی تو ہے مجھ میں چمن میں سرو کی صورت لہکتا پھرتا ہوں مگر بہ ایں ہمہ اِستادگی تو ہے مجھ...
  16. فرحان محمد خان

    نظم : Globe - اختر عثمان

    کشمیر پر اختر عثمان کی ایک پرسوز اور ولولہ انگیز نظم ۔ Globe وہی خواب خواب سے لوگ ہیں وہی نیند نیند سی رات ہے وہی تیرگی ہے چہار سُو وہی رنجِ قیدِ حیات ہے کسی راستے کا نشاں نہیں جو سراغِ منزل و گام ہو کسی روشنی کا گماں نہیں جو یقینِ اہلِ خرام ہو وہی مشعلیں ہیں بُجھی بُجھی وہی سوختہ سے...
  17. فرحان محمد خان

    غزل : سنگ ریزہ کبھی الماس نہیں بھی ہوتا -اختر عثمان

    غزل سنگ ریزہ کبھی الماس نہیں بھی ہوتا بعض اوقات یہ احساس نہیں بھی ہوتا دلِ کج فہم ہے حسّاس نہیں بھی ہوتا آدمی وقفِ غم و یاس نہیں بھی ہوتا کتنی باتیں ہیں جو لکھنا ہی نہیں چاہتا میں حرفِ گفتہ سرِ قرطاس نہیں بھی ہوتا بہتا رہتا ہے مرے خون میں اک نقشِ جمیل لمحۂ وصل مرے پاس نہیں بھی ہوتا...
  18. فرحان محمد خان

    غزل : حسن کی لہر کراں تا بہ کراں ہوتی تھی - اختر عثمان

    غزل حسن کی لہر کراں تا بہ کراں ہوتی تھی ایک جھلمل سی کہیں جی میں رواں ہوتی تھی مجتمع کیسے ہوا کرتے تھے نور اور وفور اور جب ساتھ کی مسجد میں اذاں ہوتی تھی لب و رخسار کی تعظیم بجا لانے کو روز مرّہ ہوا کرتا تھا زباں ہوتی تھی آج شہرت ہے ترے پاس تو اِترا نہیں دوست اک زمانے میں یہ کسبی مرے ہاں...
  19. فرحان محمد خان

    غزل : کنایہ کار کوئی چشم ِ نیلگوں ہے کہ یوں ۤ۔ اختر عثمان

    غزل کنایہ کار کوئی چشمِ نیلگوں ہے کہ یوں ہمیں شعور کہاں تھا، حیات یوں ہے، کہ یوں جو گِرد باد تھے اب ہیں وہ خاک اُفتاده ہوائے دشت صدا زن ہے، یوں سکوں ہے، کہ یوں خِرد شعار زمانے کا طرز اپنی جگہ ہمیں کچھ اور غرض ہے، ہمیں جنوں ہے کہ یوں لہو میں یوں تو لہکتی نہیں ہے کیا کیا لہر مگر جو ایک...
  20. فرحان محمد خان

    غزل : شروع کرتے ہوئے یہ خیال تھا ہی نہیں - اختر عثمان

    غزل شروع کرتے ہوئے یہ خیال تھا ہی نہیں وہ کارِ عشق تھا اس کا مآل تھا ہی نہیں ہزار زخم ستاروں سے جگمگاتے تھے جگر جگر تھا بدن ، اندمال تھا ہی نہیں وہ حسن لے گیا اس منطقے کی سمت مجھے جہاں سرے سے گمانِ زوال تھا ہی نہیں بس ایک لفظ کی لَو راستہ سُجھاتی تھی کہیں چراغِ سفر کا وبال تھا ہی نہیں...
Top