کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے
یہ تو آشوب ناک صورت ہے
انجمن میں یہ میری خاموشی
بُردباری نہیں ہے وحشت ہے
تجھ سے یہ گاہ گاہ کا شکوہ
جب تلک ہے بسا غنیمت ہے
خواہشیں دل کا ساتھ چھوڑ گئیں
یہ اذیت بڑی اذیت ہے
لوگ مصروف جانتے ہیں مجھے
یاں میرا غم ہی میری فُرصت ہے
سنگ پیرائے تبسم میں
اس تکلف کی کیا...
میں اور خود سے تجھ کو چھپاؤں گا ، یعنی میں
لے دیکھ لے میاں مرے اندر بھی کچھ نہیں
یہ شہرِ دارِ محتسب و مولوی ہی کیا
پیرِ مغان و رند و قلندر بھی کچھ نہیں
شیخِ حرم کو لقمے کی پروا ہے کیوں نہیں
مسجد بھی اس کی کچھ نہیں منبر بھی کچھ نہیں
مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دیار میں
شاید وہ جبر ہے کہ مقدر...
درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بھر جاتے ہیں
چھت کی کڑیوں سے اُترتے ہیں مرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکراکے بکھر جاتے ہیں
اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں
راسته روکے کھڑی ہے یہی الجھن کب سے
کوئی پوچھے تو کہیں...
میرے پاس اس نعت کی ریکارڈنگ ہے۔ یہ نعت صادق آباد کی اک محفل میں کسی نے پڑھی تھی۔ اور کیفیت لطف کا بیاں الفاظ کے بس کی بات نہیں۔ کوئی مجھے اگر کسی سائٹ کا پتہ بتا دے۔ تو وہاں پر اپلوڈ کر کے ربط یہاں دیا جا سکتا ہے۔ فی الحال میں نے یہ سنکرلکھ دی ہے۔ اگر کسی کو شاعر کا نام معلوم ہو تو وہ بھی عطا کر...
جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
کیسی سنسان فضا ہوتی ہے
ہم نے دیکھے ہیں وہ سناٹے بھی
جب ہر اک سانس صدا ہوتی ہے
دل کا یہ حال ہوا تیرے بعد
جیسے ویران سرا ہوتی ہے
رونا آتا ہے ہمیں بھی لیکن
اس میں توہین وفا ہوتی ہے
منہ اندھیرے کبھی اُٹھ کردیکھو
کیا تروتازہ ہوا ہوتی ہے
اجنبی دھیان کی ہر موج کے ساتھ...
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سےبڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔۔
کہ جن کے سیل...
عجب حالت ہماری ہو گئی ہے
یہ دنیا اب تمہاری ہو گئی ہے
سخن میرا اداسی ہے سرِ شام
جو خاموشی پہ طاری ہو گئی ہے
بہت ہی خوش ہے دل اپنے کیے پر
زمانے بھر میں خواری ہو گئی ہے
وہ نازک لب ہے اب جانے ہی والا
مری آواز بھاری ہو گئی ہے
دل اب دنیا پہ لعنت کر کہ اس کی
بہت خدمت گزاری ہو گئی ہے
یقیں...
دسمبر کے مہینے کا وہ شاید آخری دن تھا
گذشتہ سال میں نے
محبت لفظ لکھا تھا
کسی کاغذ کے ٹکڑے پر
اچانک یاد آیا ہے
گذشتہ سال میں مجھ کو
کسی سے بات کرنی تھی
اسے کہنا تھا جانِ جاں
مجھے تم سے محبت ہے
مگر میں کہہ نہیں پایا
وہ کاغذ آج تک لپٹا پڑا ہے دُھول میں لیکن
کسی کو دے نہیں پایا
دسمبر پھر کے آیا ہے...
آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے یادگار تھے ہم تو
پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ
تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو
وقت کی دھوپ میں تمہارے لیے
شجرِ سایہ دار تھے ہم تو
اُڑتے جاتے ہیں دھُول کے مانند
آندھیوں پر سوار تھے ہم تو
ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو
شرم ہے اپنی بار باری کی...
میں تو خدا کے ساتھ ہوں، تم کس کے ساتھ ہو
ہر لمحہ لا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
مجھ کو بقائے عیش ِ توہم نہیں قبول
میں تو فنا کے ساتھ ہو تم کس کے ساتھ ہو
میں ہوں بھی یا نہیں ہوں، عجب ہے مرا عذاب
ہر لمحہ یا کے ساتھ ہوں، تم کس کے ساتھ ہو
میں ہوں غبار جادہ بود و نبود کا
یعنی ہوا کے ساتھ ہوں،...
ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے
مطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے
چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی
اے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے
شاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال
اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے
ہے حسن کا فسوں بھی علاج فسردگی
رُخ سے نقاب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے
میں نے کبھی یہ ضد تو...
اتنی مہلت کہاں کہ گھٹنوں سے
سر اُٹھا کر فلک کو دیکھ سکوں
اپنے ٹکڑے اُٹھاؤں دانتوں سے
ذرہ ذرہ کریدتا جاؤں
چھیلتا جاؤں ریت سے افشاں
وقت بیٹھا ہوا ہے گردن پر
تو ڑتا جارہا ہے ٹکڑوں میں
زندگی دے کے بھی نہیں چکتے
زندگی کے جو قرض دینے ہیں
یہ رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدربھی دراز کر لے
میں تیرگی کا غبار بن کر نہیں جیوں گا
مجھے پتہ ہے کہ ایک جگنو کے جاگنے سے
یہ تیرگی کی دبیز چادر نہیں کٹے گی
مجھے خبر ہے کہ میری بے زور ٹکروں سے
فصیلِ دہشت نہیں ہٹے گی
میں جانتا ہوں کہ میرا شعلہ
چمک کے رزقِ غبار ہو گا
تو بے خبر یہ دیار ہو گا
میں...
کوئی سایہ اچھے سائیں دھوپ بہت ہے
مر جاؤں گا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے
سانولی رت میں خواب جلے تو آنکھ کھلی
میں نے دیکھا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے
اب کے موسم یہی رہا تو مر جائے گا
اک اک لمحہ اچھے سائیں دھوپ بہت ہے
کوئی ٹھکانہ بخش اسے جو گھوم رہا ہے
مارا مارا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے
ایک تو دل کے رستے...
موسم بھی نہیں غم کا مگر ٹوٹ رہا ہے
کس حبس میں آنکھوں سے ثمر ٹوٹ رہا ہے
جیسے کسی ٹہنی پر لرزتے ہوئے پتے
اے موسم ہجراں میرا گھر ٹوٹ رہا ہے
سہمے ہوئے نکلے ہیں پرندے بھی میرے ساتھ
آندھی سے میرے گھر کا شجر ٹوٹ رہا ہے
یہ خون کے قطرے میرے چلنے کا صلہ ہیں
یا پاؤں سے چپکا ہوا در ٹوٹ رہا ہے
میں خواب...
آج فراغت پاتے ہی، ماضی کا دفتر کھولا ہے
تنہائی میں بیٹھ کر، اپنا ایک ایک زخم ٹٹولا ہے
چھان چکا ہوں جسم اور روح پر آئی خراشوں کو
الٹ پلٹ کر دیکھ لیا ہے ارمانوں کی لاشوں کو
کمرے میں اسے کہیں رکھا تھا، یا دل میں کہیں دفنایا تھا
جانے وہ انمول خزانہ میں نے کہاں چھپایا تھا
ساری عمر کا حاصل تھی، یہ...