غزل
اچھا تمھارے شہر کا دستور ہوگیا
جس کو گلے لگا لیا وہ دور ہوگیا
کاغذ میں دب کے مر گئے کیڑے کتاب کے
دیوانہ بے پڑھے لکھے مشہور ہو گیا
محلوں میں ہم نے کتنے ستارے سجا دیے
لیکن زمیں سے چاند بہت دور ہو گیا
تنہائیوں نے توڑی دی ہم دونوں کی انا
آئینہ بات کرنے پہ مجبور ہو گیا
بشیر بدر
نئے سال کے حوالے سے تین پرانے اشعار۔۔۔ چند سال قبل یہ غزل لکھی تھی لیکن شاید حالات کی نذر ہو گئی اور اس وقت نجانے کہاں ہے۔ اگر مکمل غزل کہیں لکھی ہوئی مل گئی یا یاد آ گئی تو پیش کر دوں گا۔
اب کے بار مل کے یوں سالِ نو منائیں گے
رنجشیں بھُلا کر ہم نفرتیں مٹائیں گے
تجھ کو بھول جانے کی پھر قسم...
وارث صاحب کے ارشاد کی مزید تعمیل اور فرخ صاحب کی حوصلہ افزائی کہ "اگر وہ کھچ تھی تو یہ اس سے بڑی ہے" نے "اکسایا" کہ یہ تک بندی بھی آپ کی نازک سماعتوں / بصارتوں پر بار گراں کے طور پر لاد دوں۔ تو پیش ہے:
تلاشِ زیست میں اک روز مر کے دیکھیں گے
ہم اشک بن کے تری چشمِ تر کے دیکھیں گے
جنونِ...
وارث صاحب کا ارشاد تھا کہ ناچیز کی مزید کچھ تُک بندیاں محفل کے ماتھے پر بد نما داغ کے طور پر ضرور موجود ہونی چاہییں۔ تو خونِ دو عالم وارث صاحب کی گردن پر اور ایک مجموعۂ الفاظ، جسے شعرا و نقاد تکنیکی طور پر شاید "غزل" کا نام دیتے ہیں، حاضر خدمت ہے:
ہر نفَس اک وبال سا کچھ ہے
اب کے جینا محال...
ماہِ آزادی کے حوالے سے میری ایک پرانی غزل جو کئی سال پہلے کہی تھی لیکن آج بھی تازہ ہے۔
ارضِ وطَن کو پھر سے لہُو کا خراج دو
قربانیوں کی رسم کو پھر سے رِواج دو
ظلمت کی بادِ تیز سے جو سرنگوں نہ ہو
طاقِ وطن کو ایسا کوئی اب سراج دو
گر "کَل" سنوارنی ہے تمہیں ارضِ پاک کی
مقتل میں وقت کے یہ...
السلام علیکم
ناچیز کی ایک غزل پیش خدمت ہے:
ق
وہ شمع رخ ہے فروزاں خدا خدا کر کے
ہوئے ہیں دید کے ساماں خدا خدا کر کے
بندھا تصوّرِ جاناں خدا خدا کر کے
کٹی ہے ساعتِ ہجراں خدا خدا کر کے
اُسی کے ہاتھوں دریدہ ہوا یہ دل کے ساتھ
کھُلا نصیبِ گِریباں خدا خدا کر کے
بلا سے قتل ہوئے دل فِگار، ادا تو...
سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں
بس ذرا وفا کم ہے تیرے شہروالوں میں
پہلی بار نظروں نے چاند بولتے دیکھا
ہم جواب کیا دیتے کھوگئے سوالوں میں
رات تیر یادوں نے دل کو اس طرح چھیڑا
جیسے کوئی چٹکی لے نرم نرم گالوں میں
یوں کسی کی آنکھوں میں صبح تک ابھی تھے ہم
جس طرح رہے شبنم پھول کے پیالوں میں...