اک بے وفا کو پیار کیا، ہائے کیا کیا
خود دل کو بیقرار کیا، ہائے کیا کیا
معلوم تھا کہ عہدِ وفا ان کا جھوٹ ہے
اس پر بھی اعتبار کیا، ہائے کیا کیا
وہ دل کہ جس پہ قیمتِ کونین تھی نثار
نذرِ نگاہِ یار کیا، ہائے کیا کیا
خود ہم نے فاش فاش کیا رازِ عاشقی
دامن کو تار تار کیا، ہائے کیا کیا
آہیں بھی بار...
کل رات مجھے خواب اک ایسا نظر آیا
جیسے کہ مجھے گنبدِ خضرا نظرآیا
ہر سمت حدی خوانوں کے نغمے تھے فضا میں
اُونٹوں کی قطاروں کا تماشا نظرآیا
لبیک کی آواز تھی ہر اک کی زباں پر
ہنستا نظر آیا کوئی روتا نظر آیا
ہر گام مچلتی نظر آتی تھیں ضیائیں
خورشید نظر آیا جو ذرہ نظر آیا
کچھ ایسے بھی راہی تھے کہ جو...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
مجھ سے نہ پوچھ میرا حال، سُن مرا حال کچھ نہیں
تیری خوشی میں خوش ہوں میں، مجھ کو ملال کچھ نہیں
میرے لئے جہان میں ماضی و حال کچھ نہیں
جب بھی نہ تھا کوئی سوال، اب بھی سوال کچھ نہیں
مجھ کو کوئی خوشی نہیں، مجھ کو ملال کچھ نہیں
یہ تو ترا کمال ہے، میرا کمال کچھ نہیں
شکوہء بخت ہے...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
میری سرشست ہی میں محبت ہے کیا کروں
مجھ کو تو ہر فریب حقیقت ہے کیا کروں
گو دل کو تم سے خاص شکایت ہے کیا کروں
پھر بھی مجھے تمہیں سے محبت ہے کیا کروں
اب تو دعا یہ ہے نہ مٹے اضطرابِ دل
دل کو بھی اب سکون سے نفرت ہے کیا کروں
کیوں کر رہوں نہ غرقِ تصور میں رات دن
ہاں دیدِ روئے یار...
نعت شریف
(بہزاد لکھنوی)
جن کا ہے طیبہ مقام، اُن پہ درود اور سَلام
جو ہیں رسولِ انام، اُن پہ درود اور سَلام
حامیء عالم ہیں وہ، ہادیء اعظم ہیں وہ
کیوں نہ کہیں خاص و عام، اُن پہ درود اور سَلام
جو ہیں حبیب خدا، جو ہیں شہِ دوسرا
جن کی ہے دنیا غلام، اُن پہ درود اور سَلام
جن کے ہیں یہ دوجہاں، جن...
نعت کا لفظ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذات گرامی اور صفات حمیدہ و طیبہ کے بیان کے لیے مخصوص ہے _ دوسری ہستیوں کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان میں وصف، مدح، مدحت، منقبت، تعریف، توصیف اور دیگر الفاظ استعمال ہوئے لیکن لفظ نعت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح کے...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
رو رہا ہوں تَو، مجھ کو رونے دو
عشق میں زندگی کو کھونے دو
رشتہء نور میں، محبت کے
اب مجھے اشکِ غم پرونے دو
ہر مقدر کا کام ہے سونا
کیوں جگاتے ہو اس کو، سونے دو
دل کی میرے، تمہیں ہے کیا پروا
درد ہوتا ہے دل میں، ہونے دو
ہے مجھے عمرِ جاوداں کی تلاش
جان کھوتا ہوں، مجھ کو کھونے دو...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
اُٹھ رہا ہوں میں تیری محفل سے
ہو کے مجبور جذبہء دل سے
گمرہی سے ہوں کس قدر مانوس
بھاگتا ہوں میں دُور منزل سے
کوئی مجھ تک نہ ناخدا پہنچے
کر رہا ہوں خطاب ساحل سے
واقعی آج ہم تو بھر پائے
ان کی محفل سے رنگِ محفل سے
رعبِ جلوہ ہے دابِ جلوہ ہے
گفتگو کررہا ہوں مشکل سے
لذتیں کس قدر...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
ہم نے اِتنا تو دُور سے دیکھا
تم نے ہم کو غرور سے دیکھا
پھر بھی زد میں نگاہ آہی گئی
لاکھ جلوؤں کو دُور سے دیکھا
حُسن والوں نے عشق والوں کو
جب بھی دیکھا غرور سے دیکھا
آج فریادِ غم نکل ہی گئی
اس دلِ ناصبور سے دیکھا
جو نظر آئی، کامیاب آئی
آج اُن کے حضور سے دیکھا
لاکھ افسانہ...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
حُسن کو بےنقاب ہونا تھا
عشق کو کامیاب ہونا تھا
پُر ہیں اشکوں سے کیوں تری آنکھیں
ان کو جامِ شراب ہونا تھا
پڑی تھی آپ کی نگاہِ کرم
ذرّے کو آفتاب ہونا تھا
مسکراتیں نہ کیوں تری نظریں
ہر نظر کا جواب ہونا تھا
تیرے جلوؤں کی اس میں کیا ہے خطا
حال دل کا خراب ہونا تھا
عشق کس واسطے...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
تو وہی، ترا شباب وہی
کیوں نہ ہو مجھ کو اضطراب وہی
ظاہراَ جس کو ہوگی ناکامی
ہوگا اُلفت میں کامیاب وہی
دیکھتی ہیں تری نگاہیں کیا
ہے مرا عالمِ خراب وہی
فرق ساقی کی ہے نگاہوں کا
ورنہ ساغر وہی، شراب وہی
لاکھ اُلفت کے باوجود اب تک
تجھ کو مجھ سے ہے اجتناب وہی
نگہِ استعجاب کیا...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
محبت سے دل کو میں آگاہ کرلوں
ذرا ٹھہرو! ہلکی سی اک آہ کرلوں
بتاؤٖ ذرا میرے ہوجاؤ گے تم
میں دل میں تمہارے اگر راہ کرلوں
مزہ چاہ کرنے کا آجائے مجھ کو
کسی بےوفا سے اگر چاہ کرلوں
اُٹھاؤ نظر، جب ہی الزام دینا
اگر اپنے دل کی میں پرواہ کرلوں
جب ہی آئیں گی لذتیں رہروی کی
ذرا اپنے...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
غم نہیں ہے ہمیں ملال نہیں
حال یہ ہے کہ کوئی حال نہیں
اب ستم ہو تو کیا، کرم ہو تو کیا
اب کسی بات کا خیال نہیں
اک نظر کہہ گئی جو کہنا تھا
ہر نظر مائلِ سوال نہیں
اب تو کچھ کچھ سکوں بھی ملتا ہے
مضطرب ہوں مگر حال نہیں
اپنی بربادیوں کا کیوں غم ہو
یہ تو آغازِ ہے مآل نہیں
مل چکا...
کیفیاتِ آرزو
(بہزاد لکھنوی)
آپ کا جب مجھے خیال آیا
دل کی ہر آرزو کو حال آیا
کتنا نازک تھا دل کا آئینہ
ٹھیس لگتے ہی ہائے بال آیا
رُخ پہ کیوں کھیلنے لگی شوخی
دل میں کوئی حسین خیال آیا
اُٹھیں تعظیم کو مری نظریں
جب کوئی صاحبِ جمال آیا
ہر تمنّا ہے کچھ پریشان سی
آپ کو ظلم کا خیال آیا
جوش دستِ کرم...
انکشافِ حقیقت
(بہزاد لکھنوی)
ہر نظر میں حجاب ہے اُن کی
آنکھ جامِ شراب ہے اُن کی
ہر نظر کیوں نہ لے اُڑے دل کو
ہر نظر کامیاب ہے اُن کی
کل جو بیمار حُسن و اُلفت تھے
آج حالت خراب ہے اُن کی
جن کو کچھ بھی لگاؤ ہے تم سے
زندگی اک عذاب ہے اُن کی
ہے نظر ان کی جن غریبوں پر
دولتِ اضطراب ہے اُن کی
اپنے...
اِلتجائے شوق
(بہزاد لکھنوی)
اے حُسنِ کُل نہ جلوہء لیل و نہار بن
میرے جہانِ عشق کا پروردگار بن
مجھ کو تو تونے بخش دیا لطفِ اضطراب
میری طرح سے تو بھی تو کچھ بیقرار بن
آتا ہے مجھ کو لطف بہت انتظار میں
تیرے نثار حاصلِ صد انتظار بن
مجھ کو عزیز ہیں یہ مری غم نصیبیاں
یہ کون کہہ رہا ہے کہ تو غم گسار...
ضروریات
(بہزاد لکھنوی)
الگ سب سے اپنا جہاں چاہتا ہوں
محبت کے کون و مکاں چاہتا ہوں
مجھے چاہئے اک زمینِ محبت
محبت کا اک آسماں چاہتا ہوں
خدائے محبت، خدائے جوانی
محبت کا عالم جواں چاہتا ہوں
اٹھائے نہ اُٹھوں، جگائے نہ چونکوں
اب اک ایسا خوابِ گراں چاہتا ہوں
جہاں میں ملے ہیں ستم گر تو لاکھوں
جہاں...
فریبِ نگاہ
(بہزاد لکھنوی)
الزام میرے دل پہ ہے کیوں اشتباہ کا
سارا قصور ہے یہ فریبِ نگاہ کا
مجھ کو تلاش کرتے زمانہ گذر گیا
رہبر ملا نہ کوئی محبت کی راہ کا
میرے سرِ نیاز کو معراج مل گئی
ہے سنگِ در نصیب تری بارگاہ کا
میں خود تباہ ہونے لگا چل کے ساتھ ساتھ
مجھ کو صلا ملا ہے یہ تجھ سے نباہ کا...
غرورِ محبت
(بہزاد لکھنوی)
محبت پر بہت مغرور ہوں میں
ابھی منزل سے کوسوں دور ہوں میں
حسیں جلوؤں کا مرکز بن گیا ہوں
ادھر دیکھو سراپا طور ہوں میں
جہانِ عاشقی میں ضبط کے ساتھ
فغاں کرنے پہ بھی مجبور ہوں میں
چڑھا دو مجھ کو تم دارِ نظر پر
محبت کی قسم منصور ہوں میں
جفاؤں سے نہ اپنی دست کش ہو
جفائے...