غزل
(بہزاد لکھنوی)
عالمِ عشقِ حقیقی بھی جُدا ہوتا ہے
جس کو اللہ بنا لو، وہ خُدا ہوتا ہے
ہاں ترے نام پہ میرا تو تڑپنا ہے درست
پر مرے ذکر پہ ظالم تجھے کیا ہوتا ہے
درد کو کیوں نہ کہوں باعثِ تسکیں ہےیہی
درد کو درد سمجھنے سے بھی کیا ہوتا ہے
یہ تصور کا کام ہے کہ عنایت تیری!
تو ہراک گام پہ کیوں...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
دُنیا سے مجھے مطلب ؟اس کی نہیں پروا ہے
دُنیا تو مری تم ہو، تم سے مری دنیا ہے
بیکار ہے ہر حسرت ، بےسود تمنّا ہے
آغاز میں ہنسنا ہے، انجام میں رونا ہے
کیا یہ بھی بتلادوں، تو کون ہے، تو کیا ہے
ہاں دیں ہے توہی میرا ، توہی مری دنیا ہے
اللہ رے رعنائی اس جلوہء کامل کی
دل محوِ...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
اک بے وفا کو پیار کیا، ہائے کیا کیا
خود دل کو بیقرار کیا، ہائے کیا کیا
معلوم تھا کہ عہدِ وفا ان کا جھوٹ ہے
اس پر بھی اعتبار کیا، ہائے کیا کیا
وہ دل کہ جس پہ قیمتِ کونین تھی نثار
نذرِ نگاہِ یار کیا، ہائے کیا کیا
خود ہم نے فاش فاش کیا رازِ عاشقی
دامن کو تار تار کیا، ہائے کیا...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
آئے تو میری روح کو تڑپا کے چل دیئے
اُلفت کی اک شراب سی برسا کے چل دیئے
ان کے حجاب میں نہ کوئی بھی کمی ہوئی
میری نگاہِ شوق کو ترسا کے چل دیئے
تقدیر اس کو کہتے ہیں قسمت ہے اس کا نام
تسکین دینے آئے تھے، تڑپا کے چل دیئے
آئے تو تھے کہ درد مٹا دیں گے قلب کا
دیکھا جو حال غیر تو...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
اُن کی نادانیاں نہیں جاتیں
میری قربانیاں نہیں جاتیں
میں تو ہنستا ہوں تھام کر دل کو
جب پریشانیاں نہیں جاتیں
جب سے دیکھا ہے آئینہ وش کو
دل کی حیرانیاں نہیں جاتیں
بزمِ جاناں میں تک رہا ہوں نظر
میری نادانیاں نہیں جاتیں
پارہا ہوں ہر اک طرف اُن کو
ہائے حیرانیاں نہیں جاتیں
ہے...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
یہ ہے اک نَو شباب کا عالم
جیسے کِھلتے گلاب کا عالم
حُسن زیرِ نقاب اُف توبہ
صبحدم آفتاب کا عالم
تم نے کی بھی نگاہِ لُطف تو کیا
کیا گیا اضطراب کا عالم
میرے دامانِ تر سے پوچھ نہ لو
میری چشمِ پُرآب کا عالم
سیلِ اُلفت میں ہے یہ حال مرا
جیسے بہتے حباب کا عالم
تم بھی دیکھو گے...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
کیا بتاؤں کہ مُدعا کیا ہے
خود سمجھ لو کہ ماجرا کیا ہے
آج کی رات کیوں نہیں کٹتی
اے دلِ درد آشنا کیا ہے
خیر میں تو ہوں ان کا دیوانہ
ساری دنیا کو یہ ہوا کیا ہے
تجھ سے ملنے کی ہیں تمنّائیں
اور مجبُور کی دُعا کیا ہے
ان نگاہوں کو پھیرنے والے
یہ بتادے مری خطا کیا ہے
آج توبہ ہے...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
مرے جہانِ محبت پہ چھائے جاتے ہیں
بھُلا رہا ہوں مگر یاد آئے جاتے ہیں
وہی ہیں عشق کے مارے، وہی ہیں دل والے
جو تیرے واسطے آنسو بہائے جاتے ہیں
جہانِ عشق میں اے سیر دیکھنے والے
طرح طرح کے تماشے دکھائے جاتے ہیں
یہی مرے لئے اک روز خون روئیں گے
یہی یہی کہ جو مجھ کو مٹائے جاتے ہیں...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
یوں تو جو چاہے یہاں صاحبِ محفل ہوجائے
بزم اُس شخص کی ہے تُو جسے حاصل ہوجائے
ناخُدا اے مری کشتی کے چلانے والے
لطف تو جب ہے کہ ہر موج ہی ساحل ہوجائے
اس لئے چل کے ہر اک گام پہ رُک جاتا ہوں
تا نہ بےکیف غمِ دُوریء منزل ہوجائے
تجھ کو اپنی ہی قسم یہ تو بتا دے مجھ کو
کیا یہ ممکن...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
اک حُسن کی خِلقت سے ہر دل ہوا دیوانہ
محفل میں چراغ آیا، گرنے لگا پروانہ
اتنا مرا قصّہ ہے، اتنا مرا افسانہ
جب تم نہ ملے مجھ کو، میں ہوگیا دیوانہ
سمجھاؤ نہ سمجھے گا، بہلاؤ نہ بہلے گا
تڑپاؤ تو تڑپے گا، پہروں دل دیوانہ
زردی مرے چہرے کی، آنسو مری آنکھوں کے
سرکار یہ سب کچھ ہیں...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
وفاؤں کے بدلے جفا کررہے ہیں
میں کیا کر رہا ہوں، وہ کیا کررہے ہیں
ستم ڈھائے جاؤ، سلامت رہو تم
دُعا کرنے والے دعا کررہے ہیں
تری رحمتوں کا سہارا ہے ہم کو
ترے آسرے پر خطا کررہے ہیں
ہیں دنیا میں جتنے بھی مجبورِ اُلفت
تمہیں سے تمہارا گلہ کررہے ہیں
محبت خطا ہے، سمجھتے ہیں ہم بھی...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
ترے عشق میں زندگانی لُٹا دی
عجب کھیل کھیلا، جوانی لُٹا دی
نہیں دل میں داغِ تمنّا بھی باقی
انہیں پر سے ان کی نشانی لُٹا دی
کچھ اس طرح ظالم نے دیکھا کہ ہم نے
نہ سوچا، نہ سمجھا، جوانی لُٹا دی
تمہارے ہی کارن، تمہاری بدولت
تمہاری قسم زندگانی لُٹا دی
اداؤں کو دیکھا، نگاہوں کو...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
اُن کو بُت سمجھا تھا یا اُن کو خدا سمجھا تھا میں
ہاں بتا دے اے جبینِ شوق کیا سمجھا تھا میں
اللہ اللہ کیا عنایت کر گئی مضرابِ عشق
ورنہ سازِ زندگی کو بے صدا سمجھا تھا میں
ان سے شکوہ کیوں کروں، ان سے شکایت کیوں کروں
خود بڑی مشکل سے اپنا مدعا سمجھا تھا میں
میری حالت دیکھئے،...
حمدِ رب العالمین
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم
از: حضرت بہزاد لکھنوی
تیرا ہی ہرطرف یہ تماشا ہے اے کریم
جو بھی یہاں پہ ہے تیرا بندہ ہے اے کریم
تیرے ہی لطف سے ہے یہ راحت بھی عیش بھی
دُنیا ترے کرم ہی سے دُنیا ہے اے کریم
یہ مرگ، یہ حیات، یہ غم، یہ خوشی، یہ کیف
ادنیٰ سا سب یہ تیرا کرشمہ ہے اے...
٢
ہی قافیہ میں جناب بہزاد لکھنوی کی ایک بہت خُوب غزل:
اب ہے خوشی، خوشی میں نہ غم ہے ملال میں !
دُنیا سے کھو گیا ہُوں تمہارے خیال میں
مُجھ کو نہ اپنا ہوش، نہ دُنیا کا ہوش ہے
بیٹھا ہوں، ہوکے مست تمھارے خیال میں
تاروں سے پُوچھ لو مِری رُودادِ زندگی
راتوں کو جاگتا ہُوں تمہارے خیال میں...
آج یوٹیوب پر ایک اور لاجواب آئٹم دریافت ہواہے جسے یہاں پیش کر رہا ہوں۔ استاد جمن کی گائیگی سننے کا بھی پہلی مرتبہ اتفاق ہوا ہے اور اس نے بھی دل کو چھو لیا ہے۔ اس غزل کے لکھنے والے شاعر کے بارے میں یہاں اور یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
اب ہے خوشی خوشی میں، نہ غم ہے ملال میں
دنیا سے کھو گیا ہوں...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
ہمیں کس طرح بھول جائیگی دنیا
کہ ڈھونڈھے سے ہمسا نہ پائیگی دنیا
مجھے کیا خبر تھی کہ نقشِ وفا کو
بگاڑیگی دنیا بنائیگی دنیا
محبت کی دنیا میں کھویا ہوا ہوں
محبت بھرا مجھکو پائیگی دنیا
ہمیں خوب دے فریب محبت
ہمارے نہ دھوکے میں آئیگی دنیا
قیامت کی دنیا میں ہے...
غزل
میری فضائے زیست پر ناز سے چھا گیا کوئی
آنکھ میں آنکھ ڈال کر بندہ بنا گیا کوئی
مرگ و حیات کے مزے آہ دکھا گیا کوئی
آکے ہنسا گیا کوئی جاکے رلا گیا کوئی
سجدہء عشق کے لئے پائے صنم ضرور ہے
میری جبینِ شوق کو راز بتا گیا کوئی
مرے تصورات کا سحر عجیب سحر ہے
دیکھ مرے دل حزیں دیکھ وہ آگیا...
دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے
ورنہ کہیں تقدیر تماشہ نہ بنا دے
اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنا دے
میں ڈھونڈ رہا ہوں میری وہ شمع کہاں ہے
جو بزم کی ہر چیز کو پروانہ بنا دے
آخر کوئی صورت بھی تو ہو خانۂ دل کی
کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے
بہزاد...
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
آتا ہے جو طوفاں آنے دے، کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں خود بہتا ہوا ساحل آ جائے
اے شمع، قسم پروانوں کی، اتنا تُو میری خاطر کرنا
اس وقت بھڑک کر گُل ہونا جب بانیِ محفل آ جائے
اس...