آج پھر اُن سے سامنا ہو گا
دِل پریشان ہے کہ کیا ہو گا
گفتگو سے کریں گے وہ بھی گریز
دل ہمیں بھی سنبھالنا ہو گا
پھر کوئی بات ہو گئی ہو گی
کچھ نگاہوں نے کہہ دیا ہو گا
کیا ہُوا ہم جو ہمسَفَر نہ ہُوئے
شہر بھر ساتھ ہو لیا ہو گا
دوستی میں تَو یہ بھی ہوتا ہے
لڑکھڑائے تو تھامنا ہو گا
ہم نے سمجھا...
اِس کی تَوجیہہ عَبَث ہے کہ یہ یُوں ہے یُوں ہے
عِشق بے نِسبَتِ "کُن” خُود "فَیَکُوں ” ہے یُوں ہے
اَپنی پہچان پَہ مائِل ہے بہت رُوحِ حیات
ہَر طَرَف شورِ اَنالحق جو فزوں ہے یُوں ہے
زُعمِ دانائی کو اِدراکِ حَقیقَت تھا مُحال
یہ مِرا صَدقَہِ اَندازِ جُنوں ہے یُوں ہے
تُم نے دیکھی ہی نہیں ہے تَپِشِ...
سزا جزا کے ہیں یا بَندَگی کے قصّے ہیں
کچھ اختیار کے کچھ بے بَسی کے قصّے ہیں
طِلِسم خانہِ تخلیق اَزَل سے تا بہ اَبَد
سب، عشقِ ذات کے اَور آزَری کے قصّے ہیں
یہ جَبرِ باد یہ ذَرّوَں کی دَشت پیمائی
یہ سب مری تری آوارَگی کے قصّے ہیں
مآلِ گُل کی و پژمردگیِ گُل کی قَسَم
سکوتِ غنچہ میں لب بستگی کے...
سَلام
ضاؔمن جعفری
فضائیں ماتم کُناں رہیں گی زمانہ وقفِ اَلَم رہے گا
کسے خبَر تھی یہ خونِ ناحق قضا کے دامن پہ جَم رہے گا (نسیمؔ امروہوی)
یہ وہ لہو ہے ضمیرِ انساں میں جس کی خوشبو بَسی رہے گی
صدائے ھَل مِن سے نَوعِ انساں کا سَر خجالت سے خَم رہے گا
حدیثِ مُرسَلﷺ ہے تا قیامت رہیں گے باہم کتاب و...
غزل
ضاؔمن جعفری
اے گردبادِ وقت! بکھرتا نہیں ہُوں میں
نقشِ وفا ہُوں نقشِ کفِ پا نہیں ہُوں میں
دیکھا ضرور سب نے رُکا کوئی بھی نہیں
کہتا رہا ہر اِک سے، تماشا نہیں ہُوں میں
ساحل ہے تُو تَو، تجھ کو سمندر کا کیا پَتا
مجھ میں اُتَر کے دیکھ، ڈبوتا نہیں ہُوں میں
بیٹھا جو لےکے خود کو تَو معلوم یہ ہُوا...
غزل
(ضامن جعفری)
رُخ ہوا کا بدل کے بات کرو
مجھ سے مجھ ہی میں ڈھل کے بات کرو
تم اگر "میں" ہو، کچھ ثبوت بھی دو
آئینے سے نکل کے بات کرو
حشر میں حُسنِ کُل کا سامنا ہے
تم، مرے ساتھ چل کے بات کرو
دل تو چاہا کہ پھٹ پڑوں غم پر
عقل بولی سنبھل کے بات کرو
کبھی دیکھ تو مل کے ضامن سے
دیکھنا کیا ہے بلکہ...
غزل
ضاؔمن جعفری
فریبِ رنگِ بَہاراں نے روک رکّھا ہے؟
اب اِس چمن میں کِس امکاں نے روک رکّھا ہے؟
یہ کیسے ہاتھ ہیں، تن سے جُدا نہیں ہیں اگر
تَو اِن کو کیسے گریباں نے روک رکّھا ہے
سُنا ہے ہم نے کہ وہ مائلِ کَرَم ہیں بہت
ہماری تنگیِ داماں نے روک رکّھا ہے
جنابِ شیخ یہ کہہ کر چُھپا گئے کیا کیا...
غزل
(ضاؔمن جعفری)
(زمانہِ طالبِ علمی 1958ء)
نہ کوئی مونس نہ کوئی ہمدم کہیَں تَو کس سے کہیَں فسانہ
تمہیں خبر کیا ،ہنسا ہے کیا کیا ،رُلا رُلا کے ہمیں زمانہ
بسی تَو بستی ہمارے دل کی چلو بالآخر اِسی بَہانے
مِلا نہ کون و مکاں میں رنج و غم و اَلَم کو کوئی ٹھکانہ
جہاں کی نیرنگیوں سے شکوہ ہو کیا کہ...
طرحی غزل
(ضاؔمن جعفری)
کیسے اپنے کو سَمیٹا ہوگا
وہ اگر ٹُوٹ کے بِکھرا ہوگا
ایک رَٹ، دل نے لگا رکّھی ہے
" چاند کس شہر میں اُترا ہوگا" (ناصرؔ کاظمی)
نئی دولت کوئی ہاتھ آئی ہے؟
میرے دل کا کوئی ٹکڑا ہوگا!
چاند تاروں کو ہَٹا دے کوئی
یہ مری آہ کا رَستا ہوگا
دولتِ غم ہے تمہارے دم سے
تم نہیں ہو گے...
عورت
(از: ضامن جعفری)
"زندگی سے، برسرِ پیکار ہُوں"
ہر ستم کے سامنے، دیوار ہُوں
کچھ تَو اے تہذیبِ انساں احتیاط!
میں، ترا ، آئینہِ کردار ہُوں
وقت نے، سیسہ پِلایا ہے، مجھے
یہ نہ سمجھو، ریت کی دیوار ہُوں
ریشم و کمخواب میں پہلے تھی، اب
تیغ ہُوں، اور، تیغِ جَوہر دار ہُوں
یہ ، مِرا ،...
بقرعید
(ضاؔمن جعفری)
اِس بار بقرعید پہ ہم بھی رہے یہاں
بکرا خریدا ایسا کہ بِلّی کا ہو گماں
کرنے کو تھے ہنوز گَلے پر چُھری رواں
چُبھتا ہُوا عجیب یہ اُس نے دیا بیاں
یہ کس نے کہہ دیا ہے کہ سب بھائی بھائی ہیں؟
سولہ کروڑ بکرے ہیں، کچھ سَو قصائی ہیں
غزل
(ضامن جعفری)
ہوچکا جو وہ دوبارا نہیں ہونے دوں گا
میں سرِ راہ تماشا نہیں ہونے دوں گا
گوشہِ چشم میں رہ پائے تو بیشک رہ لے
قطرہِ اشک کو دریا نہیں ہونے دوں گا
یہ کوئی بات ہے جب چاہے نکالے مجھ کو
بزم کو عالمِ بالا نہیں ہونے دوں گا
دل کو سمجھاؤں گا جیسے بھی ہو ممکن لیکن
اب میں اظہارِ تمنّا نہیں...
غزل
(ضامن جعفری)
امیرِ شہر کے دستِ ہُنَر کا ذکر نہیں
تمام شہر جَلا اُس کے گھر کا ذکر نہیں
پڑھا ہے ہم نے بہت ہاتھ کی لکیروں کو
کَہیِں معاہدہِ خَیر و شَر کا ذکر نہیں
تمہارے حُسن کی تاریخ نامکمّل ہے
کسی جگہ مرے حُسنِ نظر کا ذکر نہیں
صلیب و دار کے سائے میں ہے تمام سَفَر
میں جس سَفَر میں ہُوں اُس...
غزل
(ضاؔمن جعفری)
زمانے بھر سے تھی کیا ضرورت، جو دل دُکھا تھا تو ہم سے کہتے
ہمارے بارے میں کچھ کسی نے کہا سنا تھا تو ہم سے کہتے
ہمیشہ امکان کچھ نہ کچھ چاہتوں میں رہتا ہے رنجشوں کا
حضور آپس کی بات تھی کچھ برا لگا تھا تو ہم سے کہتے
ہماری کوشش سدا یہی تھی نمائشِ غم نہ ہو کبھی بھی
اگر کہیں کوئی...
غزل
(ضاؔمن جعفری)
اے جذب! اے جنوں! کوئی جلوہ دِکھائی دے
اب تا بہ کئے خرد کا تماشہ دِکھائی دے
ہرشخص ہے تصوّرِ منزل لیے ہوئے
منزل تو جب ملے کوئی رستہ دِکھائی دے
مُڑ مُڑ کے دیکھتا ہوں سرِ ریگزارِ دشت
شاید غبار میں کوئی چہرہ دِکھائی دے
پردہ تو امتحانِ نظر کا ہے ایک نام
بینا ہے وہ جسے پسِ پردہ...
غزل
(ضاؔمن جعفری)
ہمارے بعد، نہ جانے کِدَھر گئے ہَوں گے
خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے
وہ میرا حلقہِ احباب کیا ہُوا ہوگا
وہ میرے لعل و جواہر بکھر گئے ہوں گے
جو شوق و عجلتِ منزل میں تھے نہ ڈھونڈ اُن کو
وہ قافلے تو کبھی کے گذر گئے ہَوں گے
نہ معذرت نہ ندامت، تم اپنی فکر کرو
تمہارے ہاتھ...
غزل
(ضامن جعفری)
دل پہ قیامت ٹوٹ پڑی ہے آنکھ کو خوں برسانے دو
ہم سے جنوں کی بات کرو تم، ہوش و خرد کو، جانے دو
بات نہ کرنا، چُپ رہنا، نظریں نہ ملاؤ، دیکھ تو لو
اِس پر بھی گر، چہرے کا، رنگ اُڑتا ہے، اُڑ جانے دو
مَن کی بات چُھپانا مشکل، آنکھیں سب کہہ دیتی ہیں
ایسے بھی کیا دل پر پہرے،...
غزل
(ضامن جعفری)
"ایسی باتوں سے وہ کافر، بدگماں ہو جائے گا" (غالب)
حاصلِ عشقِ بتاں، سب رائگاں ہو جائے گا
آہِ سوزاں، دیکھ! زخمِ دل دُھواں ہو جائے گا
لے تَو لوں بوسہ تری دہلیز کا آکر مگر
مرجعِ عشّاقِ عالم آستاں ہو جائے گا
خاک میری مائل پرواز ہے، بن کر غبار
ہے یقین مجھ کو، تُو اِک دن...
حمدِ غفور و رحیم
(ضامن جعفری)
کلی کے بس میں، نہ کچھ گل کے اختیار میں ہے
یہ حسنِ کل کی جھلک حسنِ مستعار میں ہے
لب و زباں کی، فقط لرزشوں میں، لطف کہاں؟
مزہ، جو روح صدا دے، تَو ایک بار میںہے
ہَوا کے دوش پہ مرکز کی سمت خاک چلی
تڑپ جو دل میں تھی میرے، وہی غبار میں ہے
فرازِ طُور پہ، جانے...
غزلکیوں تجھے اپنے ستم یاد آئے
کس نے دل توڑا جو ہم یاد آئے
جھک گئی کیوں یہ نظر ملتے ہی
کیا کوئی قول و قسم یاد آئے
کچھ نہ کچھ ہے تو، اُداسی کا سبب
مان بھی جاؤ کہ ہم یاد آئے
بت کدہ چھوڑ کے جانے والو
کیا کرو گے جو صنم یاد آئے
جب بھی پامالئی اقدار ہوئی
وقت کو اہلِ قلم یاد آئے
کیا...