جانتا ہوں کہ مرا دل مرے پہلو میں نہیں
پھر کہاں ہے جو ترے حلقۂ گیسو میں نہیں
ایک تم ہو تمہارے ہیں پرائے دل بھی
ایک میں ہوں کہ مرا دل مرے قابو میں نہیں
دور صیّاد، چمن پاس، قفس سے باہر
ہائے وہ طاقتِ پرواز کہ بازو میں نہیں
دیکھتے ہیں تمہیں جاتے ہوئے اور جیتے ہیں
تم بھی قابو میں نہیں، موت بھی...
fani badayuni
urdupoetry
اردو شاعری
اردو کلاسیکی شاعری
شوکت علی خان فانیبدایونی
طارق شاہ
غزل
فانیفانیبدایونی
فرخ منظور
کلاسیکل شاعری
کلاسیکی شاعری
کلاسیکی شاعری اردو
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا
اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
حُسن ہے ذات مری، عشق صفَت ہے میری
ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا
کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں
آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا
مختصر قصّہٴ غم...
غزلِ
شوکت علی خاں
فانی بدایونی
ڈرو نہ تم کہ نہ سُن لے کہِیں خُدا میری
کہ رُوشناسِ اجابت نہیں دُعا میری
وہ تم، کہ تم نے جفا کی تو کچھ بُرا نہ کِیا
وہ میں، کہ ذکر کے قابل نہیں فغاں میری
چلے بھی آؤ، کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
سُنو، کہ پھر نہ سُنو گے تم التجا میری
کچھ ایسی یاس سے،...
ٍغزل
(فانی بدایونی)
اس کشمکشِ ہستی میں کوئی راحت نہ ملی جو غم نہ ہوئی
تدبیر کا حاصل کیا کہیئے تقدیر کی گردش کم نہ ہوئی
اللہ رے سکونِ قلب اس کا، دل جس نے لاکھوں توڑ دئیے
جس زلف نے دنیا برہم کی وہ آپ کبھی برہم نہ ہوئی
غم راز ہے اُن کی تجلی کا جو عالم بن کر عام ہُوا
دل نام ہے اُن کی...
غزل
(شوکت علی خاں فانی بدایونی)
یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیںجاتا
اُس بزم میںہُشیار ہوا بھی نہیںجاتا
کہتے ہو کہ ہم وعدہ پرسش نہیںکرتے
یہ سن کے تو بیمار ہوا بھی نہیںجاتا
دشواری، انکار سے طالب نہیںڈرتے
یوں سہل تو اقرار ہوا بھی نہیںجاتا
آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیںنصیحت
احباب سے غم...
فانی بدایونی بجا طور پر یاسیات کے امام کہے جاتے ہیں ۔ حزن و یاس ان کے کلام کا جزوئے اعظم ہے۔ فانی نے غم اور قنوطیت کو ایک نیا مزاج دیا۔ میر کے غم میں ایک گھٹن سی محسوس ہوتی ہے جبکہ فانی کا غم لذت بخش ہے۔ وہ موت کا شاعر بھی کہلاتا ہے مگر موت ان کے نزدیک سر چشمۂ حیات بن جاتی ہے۔
پیش ہے ان کی یہ...
ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا
دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا
اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغلِ فصلِ بہار تھا، نہ رہا
آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ نا خوش گوار تھا، نہ رہا
ان کی بے مہریوں کو کیا...