اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتي
يہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں
غم دنيا بھي غم يار ميں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں
تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا
دونوں انساں ہيں تو کيوں...
ایک صنم تراش جس نے برسوں
ہیروں کی طرح صنم تراشے
آج اپنے صنم کدے میں تنہا
مجبور نڈھال زخم خوردہ
دن رات پڑا کراہتا ہے
چہرے اجاڑ زندگی کے
لمحات کی ان گنت خراشیں
آنکھوں کے شکستہ مرقدوں میں
روٹھی ہوئی حسرتوں کی لاشیں
سانسوں کی تھکن بدن کی ٹھنڈک
احساس سے کب تلک لہو لے...
فقیرانہ روش رکھتے تھے
لیکن اس قدر نادار بھی کب تھے
کہ اپنے خواب بیچیں
ہم اپنے زخم آنکھوں میں لئے پھرتے تھے
لیکن روکشِ بازار کب تھے
ہمارے ہاتھ خالی تھے
مگر ایسا نہیں پھر بھی
کہ ہم اپنی دریدہ دامنی
الفاظ کے جگنو
لئے گلیوں میں آوازہ لگاتے
"خواب لے لو خواب"
لوگو
اتنے کم پندار ہم کب تھے...
عشق تو ایک کرشمہ ہے ، فسوں ہے، یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے، یوں ہے
جیسے کوئی درِدل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے، نہ بروں ہے، یوں ہے
تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے
عشق کا نام خِرد ہے نہ جَنوں ہے، یوں ہے
اب تم آئے ہو میری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ...
پيارے دوستو، احمد فراز صاحب کي يہ نظم مجھے بہت پسند ہے۔ مجھے اميد ہے کہ آپ کو بھي يہ نظم بہت پسند آئے گي۔ نظم ملاحظہ ہو:
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے۔
تمہاري پوروں کا لمس اب تک
مري کفِ دست پر ہے
اور ميں سوچتا ہوں
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے
وہ کہہ گئے تھے
کہ اب کے جو ہاتھ تيرے ہاتھوں کو چھو...
نوحہ گر چُپ ہیں ۔۔۔ کلامِ احمد ف
نوحہ گر چُپ ہیں
نوحہ گر چُپ ہیں کہ روئیں بھی تو کِس کو روئیں
کوئی اس فصلِ ہلاکت میں سلامت بھی تو ہو
کونسا دل ہے کہ جس کے لئے آنکھیں کھولیں
کوئی بِسمل کسی شب خوں کی علامت بھی تو ہو
شُکر کی جا ہے کہ بے نام و نسب کے چہرے
مسندِ عدل کی بخشش کے سزاوار ہوئے...
برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پر نام تھا بھلا سا
ابرو کھنچے کھنچے سے آنکھيں جھکی جھکی سی
باتيں رکی رکی سی لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں تھے
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ سا
خوابوں ميں خواب اُسکے يادوں ميں ياد اُسکی
نيندوں ميں گھل گيا...