آنسو
کسی کا غم سن کے
میری پلکوں پہ
ایک آنسو جو آ گیا ہے
یہ آنسو کیا ہے ؟
یہ آنسو کیا اک گواہ ہے
میری درد مندی کا، میری انسان دوستی کا ؟
یہ آنسو کیا اک ثبوت ہے
میری زندگی میں خلوص کی ایک روشنی کا ؟
یہ آنسو کیا یہ بتا رہا ہے
کہ میرے سینے میں ایک حسّاس دِل ہے
جس نے کسی کی دل دوز داستاں جو...
تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی دھوپ تم گھنا سایہ
آج پھر دل نے اک تمنا کی
آج پھر دل کو ہم نے سمجھایا
تم چلے جاؤ گے تو سوچیں گے
ہم نے کیا کھویا ہم نے کیا پایا
ہم جسے گنگنا نہیں سکتے
وقت نے ایسا گیت کیوں گایا
جاوید اختر - تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
کل جہاں دیوار تھی ہے آج اک در دیکھیے
کیا سمائی تھی بھلا دیوانے کے سر دیکھیے
پر سکوں لگتی ہے کتنی جھیل کے پانی پہ بط
پیروں کی بے تابیاں پانی کے اندر دیکھیے
چھوڑ کر جس کو گئے تھے آپ کوئی اور تھا
اب میں کوئی اور ہوں واپس تو آ کر دیکھیے
ذہن انسانی ادھر آفاق کی وسعت ادھر
ایک منظر ہے یہاں اندر کہ...
کوئی فریاد ترے دل میں دبی ہو جیسے
تو نے آنکھوں سے کوئی بات کہی ہو جیسے
جاگتے جاگتے اک عمر کٹی ہو جیسے
جان باقی ہے مگر سانس رکی ہو جیسے
ہر ملاقات پہ محسوس یہی ہوتا ہے
مجھ سے کچھ تیری نظر پوچھ رہی ہو جیسے
راہ چلتے ہوئے اکثر یہ گماں ہوتا ہے
وہ نظر چھپ کے مجھے دیکھ رہی ہو جیسے
ایک لمحے میں سمٹ...
کسی کا حکم ہے
ساری ہوائیں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے؟
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا
چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں
یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرناہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن
یہ سب ہی جانتے ہیں
×××
کسی...
جاوید اختر ہمارے اور ہمارے بھائی کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ اُن کی ایک غزل جو ہمیں پسند ہے ایک دن بیٹھے بیٹھے دماغ میں اُلٹ پُلٹ ہوگئی۔ سوچا اہلِ محفل کو بھی اس نئے ورژن سے روشناس کروا دیا جائے۔
تم ہوتے ہو جہاں حماقت ہوتی ہے
میں ہوتا ہوں، میری ہمت ہوتی ہے
اکثر وہ کہتے ہیں تکلف مت کرنا
اکثر کیوں...
غزل
دِل کا مُعاملہ جو سُپرد نظر ہُوا
دُشوار سے یہ مرحلہ دُشوار تر ہُوا
اُبھرا ، ہر اِک خیال کی تہہ سے تِرا خیال
دھوکا تِری صدا کا، ہر آواز پر ہُوا
راہوں میں ایک ساتھ یہ کیوں جل اُٹھے چراغ
شاید ترا خیال مرا ہم سفر ہُوا
سمٹی تو اور پھیل گئی ، دِل میں موجِ درد
پھیلا! تو اور دامنِ غم...
غزل
نہ کسی کی آنکھ کا نُور ہُوں، نہ کسی کے دِل کا قرار ہُوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مُشتِ غُبار ہُوں
میں نہیں ہُوں نغمۂ جاں فِزا، مجھے سُن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہُوں صدا، میں بڑے دُکھی کی پُکار ہُوں
میرا رنگ رُوپ بِگڑ گیا، مِرا یار مجھ سے بِچھڑ گیا
جو چمن...
جب وہ کم عمر ہی تھا
اس نے یہ جان لیا تھا کہ اگر جِینا ہے
بڑی چالاکی سے جِینا ہو گا
آنکھ کی آخری حد تک ہے بساطِ ہستی
اور وہ معمولی سا اِک مُہرہ ہے
ایک اک خانہ بہت سوچ کے چلنا ہو گا
بازی آسان نہیں تھی اس کی
دُور تک چاروں طرف پھیلے تھے
مُہرے
جَلّاد
نہایت سَفّاک
سخت بے رحم
بہت ہی چالاک
اپنے قبضے میں...
غزل
(جاوید اختر)
آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے، شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے
پہلے مشہور تھی اپنی سنجیدگی، اب تو جب دیکھئے مسکرانے لگے
ہم کو لوگوں سے ملنے کا کب شوق تھا، محفل آرائی کا کب ہمیں ذوق تھا
آپ کے واسطے ہم نے یہ بھی کیا، ملنے جلنے لگے، آنے جانے لگے
ہم نے جب آپ کی دیکھیں دلچسپیاں، آگئیں...
جاوید اختر کی شاعری
پیڑ سے لپٹی سوچ کی بیل
پروفیسر گوپی چند نارنگ
’ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے، شاعر تووہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے‘۔ یہاں غالب نے شخص کو شاعری سے جدا کیا ہے ،جبکہ جو شخصیت کا نشیب وفراز ہے یا زندگی کی واردات ہے وہ تو شاعری میں جھانکے گی ہی لیکن شاعری محض آئینۂ ذات بھی...
ہمارے شوق کی یہ اِنتہا تھی
قدم رکھا کہ منِزل راستہ تھی
کبھی جو خواب تھا، وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی
جسے چُھو لوں میں وہ ہو جائے سونا
تجھے دیکھا تو جانا بددُعا تھی
محبت مر گئی مجھ کو بھی غم ہے
میرے اچھے دِنوں کی آشنا تھی
میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا
میرے انجام کی وہ...
جو اِتنے قریب ہیں اِس دل سے، وہ دُور ہوئے تو کیا ہوگا
ہم اُن سے بِچھڑ کر جینے پر مجبُور ہوئے تو کیا ہوگا
ہم اُن کی محبت پانے کو ہر بات گوارا تو کرلیں
اِن باتوں سے وہ اور اگر مغرُور ہوئے تو، کیا ہوگا ؟
شیشے سے بھی نازک خواب ہیں جو راتوں نے سجائے ہیں لیکن
یہ دن کی چٹانوں پر گِر کے جب...
غزل
کن لفظوں میں اتنی کڑوی، اتنی کسیلی بات لکھوں
شہر کی میں تہذیب نبھاؤں، یا اپنے حالات لکھوں
غم نہیں لکھوں کیا میں غم کو، جشن لکھوں کیا ماتم کو
جو دیکھے ہیں میں نے جنازے کیا اُن کو بارات لکھوں
کیسے لکھوں میں چاند کے قصے، کیسے لکھوں میں پھول کی بات
ریت اُڑائے گرم ہوا تو کیسے میں برسات...
غزل
سچ ہے یہ بے کار ہمیں غم ہوتا ہے
جو چاہا تھا، دنیا میں کم ہوتا ہے
ڈھلتا سورج، پھیلا جنگل، رستہ گم
ہم سے پوچھو کیسا عالم ہوتا ہے
غیروں کو کب فرصت ہے دکھ دینے کی
جب ہوتا ہے کوئی ہمدم ہوتا ہے
زخم تو ہم نے ان آنکھوں سے دیکھے ہیں
لوگوں سے سُنتے ہیں مرہم ہوتا ہے
ذہن کی شاخوں پر اشعار آ...
غزل
میں خود بھی سوچتا ہوں یہ کیا میرا حال ہے
جس کا جواب چاہیے وہ کیا سوال ہے
گھر سے چلا تو دل کے سوا پاس کچھ نہ تھا
کیا مجھ سے کھو گیا ہے مجھے کیا ملال ہے
آسودگی سے دل کے سبھی داغ دُھل گئے
لیکن وہ کیسے جائے جو شیشے میں بال ہے
بے دست و پا ہوں آج تو الزام کس کو دوں
کل میں نے ہی بُنا تھا...
غزل
میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا
وہ مجھ سے جیت بھی سکتا تھا جانے کیوں ہارا
برس کے کُھل گئے آنسو، نِتھر گئی ہے فضا
چمک رہا ہے سرِ شام درد کا تارا
کسی کی آنکھ سے ٹپکا تھا، اک امانت ہے
مِری ہتھیلی پہ رکھا ہوا یہ انگارا
جو پَر سمیٹے تو اک شاخ بھی نہیں پائی
کُھلے تھے پر تو مِرا...
غزل
یہ تسلّی ہے کہ ہیں ناشاد سب
میں اکیلا ہی نہیں، برباد سب
سب کی خاطر ہیں یہاں سب اجنبی
اور کہنے کو ہیں گھر آباد سب
بھول کے سب رنجشیں سب ایک ہیں
میں بتاؤں سب کو ہوگا یاد سب
سب کو دعوائے وفا، سب کو یقیں
اس اداکاری میں ہیں اُستاد سب
شہر کے حاکم کا یہ فرمان ہے
قید میں کہلائیں گے آزاد سب...
غزل
غم ہوتے ہیں جہاں ذہانت ہوتی ہے
دنیا میں ہر شے کی قیمت ہوتی ہے
اکثر وہ کہتے ہیں وہ بس ہیں میرے
اکثر کیوں کہتے ہیں حیرت ہوتی ہے
تب ہم دونوں وقت چُرا کر لاتے تھے
اب ملتے ہیں جب بھی فرصت ہوتی ہے
اپنی محبوبہ میں اپنی ماں دیکھیں
بِن ماں کے بچوں کی فِطرت ہوتی ہے
اک کشتی میں ایک قدم ہی...