غزل
خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم
پانی چَھلنی میں لے چلے ہیں ہم
چھاچھ پھونکیں کہ اپنے بچپن میں
دودھ سے کس طرح جلے ہیں ہم
خود ہیں اپنے سفر کی دشواری
اپنے پیروں کے آبلے ہیں ہم
تُو تَو مت کہہ ہمیں بُرا دنیا
تُو نے ڈھالا ہے اور ڈھلے ہیں ہم
کیوں ہیں، کب تک ہیں، کس کی خاطر ہیں
بڑے سنجیدہ مسئلے...
درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بھر جاتے ہیں
چھت کی کڑیوں سے اُترتے ہیں مرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکراکے بکھر جاتے ہیں
اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں
راسته روکے کھڑی ہے یہی الجھن کب سے
کوئی پوچھے تو کہیں...
بھوک
آنکھ کھل گئی میری
ہوگیا میں پھر زندہ
پیٹ کے اندھیروں سے
ذہن کے دھندلکوں تک
ایک سانپ کے جیسا
رینگتا خیال آیا
آج تیسرا دن ہے۔۔۔۔ آج تیسرا دن ہے
اک عجیب خاموشی
منجمد ہے کمرے میں
ایک فرش اور اک چھت
اور چار دیواریں
مجھ سے بے تعلّق سب
سب مرے تماشائی
سامنے کی کھڑکی سے
تیز دھوپ...
غزل
(جاوید اختر)
دل میںمہک رہے ہیں کسی آرزو کے پھول
پلکوں میں کھلنے والے ہیں شاید لہو کے پھول
اب تک ہے کوئی بات مجھے یاد حرف حرف
اب تک میں چن رہا ہوں کسی گفتگو کے پھول
کلیاں چٹک رہی تھیں کہ آواز تھی کوئی
اب تک سماعتوں میں اِک خوش گلو کے پھول
مرے لہو کا رنگ ہے ہر نوکِ خار پر...
کون دہرائے وہ پرانی بات
غم بھی سویا ہے جگائے کون
وہ جو اپنے ہیں ، کیا وہ اپنے ہیں
کون دُکھ جھیلے ، آزمائے کون
اب سُکھ ہے تو بھلانے میں ہے
لیکن اُس شخص کو بھلائے کون
آج پھر دل ہے کچھ اداس اداس
دیکھیئے آج یا د آئے کون ؟؟؟ جاوید اختر ۔
؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏
اندھے خوابوں کو اصولوں کا ترازو دیدے
میرے مالک ، مجھے جذبات پہ قابو دیدے
میں سمندر بھی کسی غیر کے ہاتھوں سے نہ لوں
ایک قطرہ بھی سمندر ہے ، اگر تُو دیدے
سب کے دکھ درد سمٹ جائیں میرے سینے میں
بانٹ دے سب کو ہنسی ، لاؤ مجھے آنسو دیدے
بن کے پھولوںکی مہک مجھ کو جگانے آئے
صبح کی پہلی...
شہر کے دکاندارو ، کاروبار ِ الفت میں
سود کیا ۔۔۔ زِ یاں کیا ہے ۔۔
تم نہ جان پاؤ گے ۔۔۔
دل کے دام کتنے ہیں ۔۔خواب کتنے مہنگے ہیں
اور۔۔۔۔ ۔۔ نقد ِ جان کیا ہے ۔۔
تم نہ جان پاؤ گے ۔۔۔
کو ئی کیسے ملتا ہے ۔۔۔پھول کیسے کھلتا ہے
آنکھ کیسے جھکتی ہے ۔۔۔ سانس کیسے رکتی ہے
کیسے راہ نکلتی ہے...
کل اور آج
ایک یہ دن کہ اپنوں نے بھی ہم سے رشتہ توڑ لیا
اک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
اک یہ دن کہ جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
اک وہ دن جب اک ذرا سی بات پر ندیاں بہتی تھیں
اک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
اک وہ دن جب “آؤ کھیلیں“، ساری گلیاں کہتی تھیں...