حسرت دید کو ترسا کے چلا جاؤں گا
تیری الفت کی قسم کھا کےچلا جاؤں گا
اک نظر دور سے دیکھوں گا درو بام تیرے
دیدہ شوق کو تڑپا کےچلا جاؤں گا
اک برسے ھوے بادل کی طرح گزراہوں
موج میں آیا ہوں لہرا کےچلا جاؤں گا
رات کی رات مسافر ہوں تیری بستی میں
شب کا تارہ ہوں نظر آ کےچلا جاؤں گا...
آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
چاہے کوئی رک جائے، چاہے کوئی رہ جائے
قافلوں کو چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
چاہے کوئی جیسا بھی ہم سفر ہوصدیوں سے
راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
یہ تو وقت کے بس میں ہے کہ کتنی مہلت دے
ورنہ بخت ڈھلنے میں دیر کتنی...
وہ تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا
ایک دامن بھی تو الجھا ہوا خاروں میں نہ تھا
مرنے جینے کو نہ سمجھے تو خطا کس کی ہے
کون سا حکم ہے جو ان کے اشاروں میں نہ تھا
ہر قدم خاک سے دامن کو بچایا تم نے
پھر یہ شکوہ ہے کہ میں راہگزاروں میں نہ تھا
تم سا لاکھوں میں نہ تھا، جانِ تمنا لیکن
ہم سا محروم...
طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی
حالانکہ مِرا دِل تھا شگوفہ بھی شرر بھی
اُترا نہ گریباں میں مقدر کا ستارا
ہم لوگ لٹاتے رہے اشکوں کے گہر بھی
حق بات پہ کٹتی ہیں تو کٹنے دو زبانیں
جی لیں گے مِرے یار باندازِ دگر بھی
حیراں نہ ہو آئینہ کی تابندہ فضاپر
آ دیکھ ذرا زخمِ کفِ آئینہ گر...
یوں تو کیا چیز زندگی میں نہیں
جیسے سوچی تھی اپنے جی میں ‘ نہیں
دِل ہمارا ہے چاند کا وہ رُخ
جو ترے رُخ کی روشنی میں ، نہیں
سب زمانوں کا حال ہے اِس میں
اِک وہی شام ، جنتری میں نہیں !
ہیں خلاؤں میں کِتنی دُنیا ئیں
جو کِسی حدِّ آگہی میں نہیں !
ہو کیسا، حَرم کہ بُت خانہ
فرق ان...
محترم اراکینِ محفل، آپکی خدمت میں اپنی ایک ابتدائے غزل گوئی کے زمانے کی، یعنی چار پانچ مہینے پرانی غزل پیش کر رہا ہوں۔ :)
سرشاری کا زمانہ تھا، اور اس سرشاری میں یہ بھی بھول گیا کہ خلد آشیانی نجم الدولہ، دبیر الملک مرزا اسد اللہ خان غالب کی ہی زمین استعمال کر ڈالی، یہ سرشاری بعد میں شرمساری میں...
اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر
اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
کیا جانیے کیوں تیز ہَوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اُڑا کر
اب دستکیں دے گا تُو کہاں اے غمِ احباب!
میں نے تو کہا تھا کہ مِرے دل میں رہا کر
ہر وقت کا...
مرحلے شوق کے دُشوار ہُوا کرتے ہیں
مرحلے شوق کے دُشوار ہُوا کرتے ہیں
سائے بھی راہ کی دیوار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گُنہگار ہُوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خودار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو پتھر یونہی رستے میں...
زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی
ترکِ اُلفت کے بعد اُمیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی
اب جفا کی صراحتیں بیکار
بات سے بھر سکا ہے گھاؤ کبھی
شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں
ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی
اندھے ذہنوں سے سوچنے والو
حرف میں روشنی ملاؤ کبھی
بارشیں کیا زمیں کے دُکھ...
کب میرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی اللہ تم اٹھ کے آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں
بے وجہ...
سوکھے ہونٹ، سلگتی آنکھیں، سرسوں جیسا رنگ
برسوں بعد وہ دیکھ کے مجھ کو رہ جائے گا دنگ
ماضی کا وہ لمحہ مجھ کو آج بھی خون رلائے
اکھڑی اکھڑی باتیں اس کی، غیروں جیسے ڈھنگ
تارہ بن کے دور افق پر کانپے، لرزے، ڈولے
کچی ڈور سے اڑنے والی دیکھو ایک پتنگ
دل کو تو پہلے ہی درد کی دیمک چاٹ گئی تھی
روح کو...
ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
محسوس جو کیا وہی برجستہ کہہ دیا
میں چپ ہُوا تو زخم مرے بولنے لگے
سب کچھ زبانِ حال سے لب بستہ کہہ دیا
خورشیدِ صبحِ نو کو شکایت ہے دوستو
کیوں شب سے ہم نے صبح کو پیوستہ کہہ دیا
چلتا رہا تو دشت نوردی کا طنز تھا
ٹھرا ذرا تو آپ نے پا بستہ کہہ دیا
دیکھا تو...
دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے
اُس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے، اصل میں مر جانا ہے
بول اے شامِ سفر، رنگِ رہائی کیا ہے؟
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
کون اُبھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشتِ سحر جانا...
محترم اراکینِ محفل آپ کی خدمت میں ایک غزل پیش کر رہا ہوں، امید ہے اپنی بیش قیمت رائے سے نوازیں گے، شکریہ۔
نہ دل کو ہے نہ جاں کو ہی قرار اب
جنوں ہو کے رہا اپنا شعار اب
نظر بدلی تو بدلے سارے منظر
ترا ہی جلوہ ہے اے میرے یار اب
کلی مرجھا گئی دل کی ترے بعد
بلا سے آئے گلشن میں بہار اب
پلائی...
اس سے ملنا ہی نہیں دل میں تہیہ کر لیں
وہ خود آئے تو بہت سرد رویہ کر لیں
ایک ہی بار یہ گھر راکھ ہو، جاں تو چھوٹے
آگ کم ہے تو ہوا اور مہیا کر لیں
کیا ضمانت ہے کہ وہ چاند اتر آئے گا
تارِ مژگاں کو اگر عقدِ ثریا کر لیں
سانس اکھڑ جاتا ہے اب وقت کی ہم گامی میں
جی میں آتا ہے کہ ہم پاؤں کو پہیّہ کر...
محترم اراکینِ محفل، آپکی کی خدمت میں اپنی ایک غزل پیش کر رہا ہوں، امید ہے کہ اپنی قیمتی رائے سے نوازیں گے۔ نوازش۔
جلا ہوں عمر بھر سوزِ نہاں میں
رہا ہوں مثلِ گل میں اس جہاں میں
کہوں جس سے میں دل کی بات ساری
تلاش اس کی ہے بحرِ ؓبیکراں میں
لَہک اٹھتے ہیں سب ہی داغ پھر سے
بہار اس دل...
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو
کیا جانے پھر ستم بھی میسر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو...
ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا، بیٹھ اکیلے رونا ہوگا
چپکے چپکے بہا کر آنسو، دل کے دکھ کو دھونا ہوگا
بیرن ریت بڑی دنیا کی، آنکھ سے ٹپکا جو بھی موتی
پلکوں ہی سے اٹھانا ہوگا، پلکوں ہی سے پرونا ہوگا
پیاروں سے مل جائیں پیارے، انہونی کب ہونی ہوگی
کانٹے پھول بنیں گے کیسے، کب سکھ سیج بچھونا ہوگا
بہتے بہتے...
دل محوِ جمال ہو گیا ہے
یا صرفِ خیال ہو گیا ہے
اب اپنا یہ حال ہو گیا ہے
جینا بھی محال ہو گیا ہے
ہر لمحہ ہے آہ آہ لب پر
ہر سانس وبال ہو گیا ہے
وہ درد جو لمحہ بھر رکا تھا
مُژدہ کہ بحال ہو گیا ہے
چاہت میں ہمارا جینا مرنا
آپ اپنی مثال ہو گیا ہے
پہلے بھی مصیبتیں کچھ آئیں
پر اب کے کمال ہو گیا...
نیا اک ربط پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو، رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا، اخلاص، قربانی، محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم
تمھاری ہی تمنا کیوں کریں...