عمر گزری جس کا رستہ دیکھتے
آ بھی جاتا وہ تو ہم کیا دیکھتے
کیسے کیسے موڑ آئے راہ میں
ساتھ چلتے تو تماشا دیکھتے
قریہ قریہ جتنا آوارہ پھرے
گھر میں رہ لیتے تو دنیا دیکھتے
گر بہا آتے نہ دریاؤں میں ہم
آج ان آنکھوں سے صحرا دیکھتے
خود ہی رکھ آتے دیا دیوار پر
اور پھر اس کا بھڑکنا دیکھتے...