اک نظر بس اک محبت کی نظر میرے لیے
سہل ہے پھر زندگی کا ہر خطر میرے لیے
میری جانب آنکھ بھر کر دیکھنا بھی کیا ضرور
ایک کافی ہے نگاہِ مختصر میرے لیے
غیر پر جس سے نہ افشا ہو سکے رازِ کرم
اے حسینو! وہ نگاہِ طُرفہ تر میرے لیے
ق
آبروئے موج ہے طوفان کے آغوش میں
موت ہے یعنی حیاتِ بےخطر میرے لیے
وہ بھی...
قصۂ غم بیان ہو نہ سکا
ان سے دل بدگمان ہو نہ سکا
تیرے حسن و جمال کا ہم سے
تیرے شایاں بیان ہو نہ سکا
وقت کا جو غلام ہو کے رہا
وہ امامِ زمان ہو نہ سکا
میرا افسانۂ خلوص و وفا
غیر کی داستان ہو نہ سکا
میرے سجدوں سے سرفراز عزیزؔ
غیر کا آستان ہو نہ سکا
٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ
اشاروں ہی اشاروں میں وہ کچھ فرما ہی جاتے ہیں
ہمارے اضطرابِ شوق کو بھڑکا ہی جاتے ہیں
بہت سے مدعی بزمِ محبت سے نکل آئے
تمنا جن کی ناپختہ ہو وہ گھبرا ہی جاتے ہیں
معاذ اللہ مجبوری محبت کی بھی کیا شے ہے
بھلاتا ہوں ہزار ان کو مگر یاد آ ہی جاتے ہیں
دلِ مضطر نے رازِ عشق نادانی سے کہہ ڈالا
فریبِ دوست...
کسی کا وعدۂ فردا اگرچہ مبہم ہے
مگر نشاطِ تمنا کو یہ بھی کیا کم ہے
وہ مجھ کو دیکھ کے بیگانہ وار ہو جانا
خدا کے فضل سے اتنا تو ربطِ باہم ہے
عجیب چیز ہے تکمیلِ آرزو لیکن
رضائے دوست نہ یہ ہو تو مجھ کو کیا غم ہے
الجھ گیا ہے زمانے کا مسئلہ یا رب
مزاجِ یار بہ اندازِ زلف برہم ہے
عزیزؔ کس سے کہیں...
نہیں ہے کوئی تمنا تری رضا کے سوا
نہ منتہا کوئی اس ایک منتہا کے سوا
نہیں ہے دین کوئی دینِ مصطفیٰ کے سوا
نہ راہِ حق کوئی اس جادۂ ہدیٰ کے سوا
بس ایک تیری محبت ہے مقتضائے حیات
نہیں ہے کوئی تقاضا اس اقتضا کے سوا
نہیں ہوں منکرِ تدبیر و سعی میں لیکن
نہ آئی کام مرے کوئی شے دعا کے سوا
خدا سے میں نے...
محبت سہل ہے مشکل نہیں ہے
وہ کیا جانے کہ جس کے دل نہیں ہے
حیاتِ جادواں دیتی ہے اے دل
رہِ حق کوچۂ قاتل نہیں ہے
مرے محبوب اگر تیری رضا ہی
نہیں حاصل تو کچھ حاصل نہیں ہے
بھرم کھلتا ہے اربابِ ہوس کا
جفائے دوست بے حاصل نہیں ہے
یہ اہلِ حق کی غفلت کا ہے ثمرہ
یہ غلبہ غلبۂ باطل نہیں ہے
کہا کس نے کہ...
واقفِ راز کوئی ہے ہی نہیں
موت ڈرنے کی ورنہ شَے ہی نہیں
جلوۂ حق ہے ہر طرف پیدا
اور کوئی جہاں میں ہے ہی نہیں
ہے محبت میں بھی عجیب سرور
نشہ آور جہاں میں مَے ہی نہیں
کفر کے حق میں جو ہو نغمہ سرا
مجھ کو حق سے ملی وہ نَے ہی نہیں
چھیڑ اس شوخ سے چلی جائے
قصہ یہ مستحقِ طَے ہی نہیں
زنده باد اے دعائے...
آج یعنی گیارہ نومبر مولانا ابوالکلام آزاد کی پیدائش کا دن ہے۔ اسی کی مناسبت سے ملک نصر اللہ خان عزیز کی نظم ”امام الہند“ پیش خدمت ہے جو انہوں نے 1940 میں پنجاب کے ایک جلسے میں مولانا آزاد کی موجودگی میں پڑھی تھی۔
امام الہند
اے امامِ محترم! اے رہبر عالی مقام!
علم و تدبیر و سیاست ہیں ترے در کے...
بزمِ ہستی میں جو تُو زمزمہ پرداز نہ ہو
نغمۂ شوق نہ ہو، سوز نہ ہو، ساز نہ ہو
سرخیِ شرم ترے رُخ کی جو غماز نہ ہو
بزم میں غیر کو معلوم مِرا راز نہ ہو
مجھ پہ افشائے محبت کا ہے الزام غلط
کہیں ممکن ہے تِرا راز، مِرا راز نہ ہو؟
تجھ سے مل کر میں جو خاموش سا ہو جاتا ہوں
سوچتا ہوں یہ کہیں شوق کا آغاز...
تری ادائیں بھی محرمانہ، مری نوائیں بھی محرمانہ
زمانہ کیوں سننا چاہتا ہے؟ نہیں زمانے کا یہ فسانہ
ہم اُن سے ملنے کا اے دل اک دن تراش لیں گے کوئی بہانہ
کہ شوق کتنا ہی سادہ دل ہو، طبیعت اس کی ہے شاطرانہ
عجب نہیں ہے کہ ایک آنسو اُنہیں مرا دلنواز کر دے
کہ اُن کی رحمت تو ڈھونڈتی ہے نوازشوں کے لیے...
چوٹ کھانے کے لیے اور مسکرانے کے لیے
آدمی پیدا ہوا ہے رنج اُٹھانے کے لیے
ان کو حق ہے رنج دینے کا خطا کیوں ڈھونڈیے
اس قدر کاوش اور اتنے سے بہانے کے لیے
ان کے غم کو کون غم کہتا ہے اے قلبِ حزیں
یہ ادائیں ہیں محبت آزمانے کے لئے
لاج رکھ لینا الٰہی کوششِ تعمیر کی
میں نے کچھ تنکے چنے ہیں آشیانے کے...
تصور میں کسی کے ہم نے جو آنسو بہائے ہیں
فرشتوں نے وہ سب گن گن کے پلکوں سے اٹھائے ہیں
محبت نے مٹا ڈالی تمیزِ قربت و دوری
ہم ان کو دور کیوں سمجھیں، جو رگ رگ میں سمائے ہیں
تصور میں ہزاروں مرتبہ ہم کوئے جاناں میں
گئے ہیں اور آئے ہیں، گئے ہیں اور آئے ہیں
جفا اُن کی، وفا اُن کی، حیا اُن کی، ادا اُن...
روئے روشن کو بےنقاب نہ کر
ذرے ذرے کو آفتاب نہ کر
دل کی دنیا فنا نہ ہو جائے
اتنا جلووں کو بےحجاب نہ کر
شوق کی شرح کچھ گناہ نہیں
اتنی سی بات پر عتاب نہ کر
دل کے گوشے میں دے جگہ ہم کو
بزم میں چاہے باریاب نہ کر
تُو شہِ حُسن و ناز ہے، مانا
خاکساروں سے اجتناب نہ کر
ہم تو پیتے ہیں اُن کی آنکھوں کی...