میر تقی میر

  1. فرخ منظور

    میر جھمکے دکھا کے طُور کو جن نے جلا دیا ۔ میر تقی میر

    جھمکے دکھا کے طُور کو جن نے جلا دیا آئی قیامت ان نے جو پردہ اٹھا دیا اس فتنے کو جگا کے پشیماں ہوئی نسیم کیا کیا عزیز لوگوں کو ان نے سلا دیا اب بھی دماغِ رفتہ ہمارا ہے عرش پر گو آسماں نے خاک میں ہم کو ملا دیا جانی نہ قدر اس گہرِ شب چراغ کی دل ریزۂ خزف کی طرح میں اٹھا دیا تقصیر جان دینے میں...
  2. محمد تابش صدیقی

    میر غزل: عشق کی رہ نہ چل خبر ہے شرط

    عشق کی رہ نہ چل خبر ہے شرط اولِ گام ترکِ سر ہے شرط دعویِٰ عشق یوں نہیں صادق زردیِ رنگ و چشمِ تر ہے شرط خامی جاتی ہے کوئی گھر بیٹھے پختہ کاری کے تیں سفر ہے شرط قصدِ حج ہے تو شیخ کو لے چل کعبے جانے کو یہ بھی خر ہے شرط قلب یعنی کہ دل عجب زر ہے اس کی نقادی کو نظر ہے شرط حق کے دینے کو چاہیے ہے...
  3. فرحان محمد خان

    میر عشاق کے تئیں ہے عجز و نیاز واجب : میر تقی میر

    غزلعشاق کے تئیں ہے عجز و نیاز واجب ہے فرض عین رونا دل کا گداز واجب یوں سرفرو نہ لاوے ناداں کوئی وگرنہ رہنا سجود میں ہے جیسے نماز واجب ناسازی طبیعت ایسی پھر اس کے اوپر ہے ہر کسو سے مجھ کو ناچار ساز واجب لڑکا نہیں رہا تو جو کم تمیز ہووے عشق و ہوس میں اب ہے کچھ امتیاز واجب صرفہ نہیں ہے مطلق جان...
  4. فرخ منظور

    میر دل کھِلتا ہے واں صحبتِ رندانہ جہاں ہو ۔ میر تقی میر

    دل کھِلتا ہے واں صحبتِ رندانہ جہاں ہو میں خوش ہوں اسی شہر سے میخانہ جہاں ہو ان بکھرے ہوئے بالوں سے خاطر ہے پریشاں وے جمع ہوئے پر ہیں بلا شانہ جہاں ہو رہنے سے مرے پاس کے بدنام ہوئے تم اب جاکے رہو واں کہیں رسوا نہ جہاں ہو کچھ حال کہیں اپنا نہیں بے خودی تجھ کو غش آتا ہے لوگوں کو یہ افسانہ جہاں...
  5. فرحان محمد خان

    میر اے تو کہ یاں سے عاقبتِ‌ کار جائے گا - میر تقی میر

    اے تو کہ یاں سے عاقبتِ‌ کار جائے گا غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا موقوف حشر پر ہے سو آتی بھی وہ نہیں کب درمیاں سے وعدہء دیدار جائے گا چُھوٹا جو میں قفس سے تو سب نے مجھے کہا بے چارہ کیوں کے تاسرِ‌دیوار جائے گا دے گی نہ چین لذتِ زخم اُس شکار کو جو کھا کے تیرے ہاتھ کی تلوار جائے گا تدبیر...
  6. فرحان محمد خان

    کرو توکل کہ عاشقی میں نہ یوں کرو گے تو کیا کرو گے - میر تقی میر

    کرو توکل کہ عاشقی میں نہ یوں کرو گے تو کیا کرو گے الم جو یہ ہے تو درمندو! کہاں تلک تم دوا کرو گے جگر میں طاقت کہاں ہے اتنی کہ دردِ ہجراں سے مرتے رہیے ہزاروں وعدے وصال کے تھے کوئی بھی جیتے وفا کرو گے جہاں کی مسلح تمام حیرت، نہیں ہے تِس پر نگہ کی فرصت نظر پڑے گی بسانِ بسمل کبھو جو مژگاں کو وا...
  7. فرحان محمد خان

    میر کچھ تو کہہ، وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے - میر تقی میر

    کچھ تو کہہ، وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے دن گزر جائیں ہیں پر بات چلی جاتی ہے رہ گئے گاہ تبسم پہ، گہے بات ہی پر بارے اے ہم نشیں اوقات چلی جاتی ہے یاں تو آتی نہیں شطرنجِ زمانہ کی چال اور واں بازی ہوئی مات چلی جاتی ہے روز آنے پہ نہیں نسبتِ عشقی موقوف عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے خرقہ، مندیل و...
  8. فرخ منظور

    میر غنچہ ہی وہ دہان ہے گویا ۔ میر تقی میر

    غنچہ ہی وہ دہان ہے گویا ہونٹ پر رنگِ پان ہے گویا میرے مردے سے بھی وہ چونکے ہے اب تلک مجھ میں جان ہے گویا چاہیے جیتے گذرے اس کا نام منھ میں جب تک زبان ہے گویا سربسر کیں ہے لیک وہ پُرکار دیکھو تو مہربان ہے گویا حیرتِ روے گل سے مرغِ چمن چپ ہے یوں بے زبان ہے گویا مسجد ایسی بھری بھری کب ہے میکدہ...
  9. فرحان محمد خان

    میر مرتے ہیں تیرے نرگسِ بیمار دیکھ کر - میر تقی میر

    مرتے ہیں تیرے نرگسِ بیمار دیکھ کر جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر افسوس وے کہ منتظر اک عمر تک رہے پھر مر گئے ترے تئیں اک بار دیکھ کر ناخواندہ خطِ شوق لگے چاک کرنے تو قاصد تو کہیو ٹک کہ جفاکار دیکھ کر کوئی جو دم رہا ہے سو آنکھوں میں ہے پھر آب کر یو ٹک ایک وعدہِ دیدار دیکھ کر دیکھیں جدھر...
  10. محمد تابش صدیقی

    میر غزل: بات کیا آدمی کی بن آئی

    بات کیا آدمی کی بن آئی آسماں سے زمین نپوائی چرخِ زن اس کے واسطے ہے مدام ہو گیا دن تمام رات آئی ماہ و خورشید و ابر و باد سبھی اس کی خاطر ہوئے ہیں سودائی کیسے کیسے کیے تردد جب رنگ رنگ اس کو چیز پہنچائی اس کو ترجیح سب کے اوپر دی لطفِ حق نے کی عزت افزائی حیرت آتی ہے اس کی باتیں دیکھ خودسری،...
  11. لاریب مرزا

    میر گُل کو ہوتا صبا قرار اے کاش

    گُل کو ہوتا صبا قرار اے کاش رہتی ایک آدھ دن بہار اے کاش یہ جو دو آنکھیں مند گئیں میری اس پہ وا ہوتیں ایک بار اے کاش کن نے اپنی مصیبتیں نہ گنیں رکھتے میرے بھی غم شمار اے کاش جان آخر تو جانے والی تھی اس پہ کی ہوتی میں نثار اے کاش اس میں راہ سخن نکلتی تھی شعر ہوتا ترا شعار اے کاش خاک بھی وہ...
  12. محمد تابش صدیقی

    میر غزل: منھ دھوتے اس کے آتا تو ہے اکثر آفتاب

    منھ دھوتے اس کے آتا تو ہے اکثر آفتاب کھاوے گا آفتابہ کوئی خودسر آفتاب سر صدقے تیرے ہونے کی خاطر بہت ہے گرم مارا کرے ہے شام و سحر چکر آفتاب ہر خانہ کیوں نہ صبحِ جہاں میں ہو پُر فروغ پھرتا ہے جھانکتا اسی کو گھر گھر آفتاب تجرید کا فراغ ہے یک دولتِ عظیم بھاگے ہے اپنے سائے سے بھی خوشتر...
  13. فرخ منظور

    میر غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا ۔ میر تقی میر

    غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں آخر انھیں دواؤں نے ہم کو ضرر کیا کیا جانوں بزمِ عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ میں صحبتِ شراب سے آگے سفر کیا جس دم...
  14. راحیل فاروق

    میر دل کی کچھ تقصیر نہیں ہے آنکھیں اس سے لگ پڑیاں

    دل کی کچھ تقصیر نہیں ہے آنکھیں اس سے لگ پڑیاں مار رکھا سو ان نے مجھ کو کس ظالم سے جا لڑیاں ایک نگہ میں مر جاتا ہے عاشقِ کوچکِ دل اس کا زہر بھری کیا کام آتی ہیں گو وے آنکھیں ہوں بڑیاں عقدے داغ دل کے شاید دست قدرت کھولے گا ناخن سے تدبیر کے میری کھلتی نہیں یہ گل جھڑیاں نحس تھے کیا وے وقت و...
  15. فرخ منظور

    میر اتنے سے قد پہ تم بھی قیامت شریر ہو ۔ میر تقی میر

    ہر صبح شام تو پئے ایذاے میر ہو ایسا نہ ہو کہ کام ہی اس کا اخیر ہو ہو کوئی بادشاہ کوئی یاں وزیر ہو اپنی بلا سے بیٹھ رہے جب فقیر ہو جنت کی منت ان کے دماغوں سے کب اٹھے خاکِ رہ اس کی جن کے کفن کا عبیر ہو کیا یوں ہی آب و تاب سے ہو بیٹھیں کارِ عشق سوکھے جگر کا خوں تو رواں جوے شیر ہو چھاتی قفس میں...
  16. فرخ منظور

    میر دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا ۔ میر تقی میرؔ

    دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا مجنوں مجنوں لوگ کہے ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا دیدۂ تر کو سمجھ کر اپنا ہم نے کیا کیا حفاظت کی آہ نہ جانا روتے روتے یہ چشمہ دریا ہو گا کیا جانیں آشفتہ دلاں کچھ ان سے ہم کو بحث نہیں وہ جانے گا حال ہمارا جس کا دل بیجا ہو گا پاؤں حنائی اس کے لے آنکھوں پر...
  17. فرخ منظور

    میر طریقِ عشق میں ہے رہنما دل ۔ میر تقی میر

    طریقِ عشق میں ہے رہنما دل پیمبر دل ہے قبلہ دل خدا دل قیامت تھا مروت آشنا دل موئے پر بھی مرا اس میں رہا دل رکا اتنا خفا اتنا ہوا تھا کہ آخر خون ہو ہوکر بہا دل جسے مارا اسے پھر کر نہ دیکھا ہمارا طرفہ ظالم سے لگا دل نہ تھی سہل استقامت اس کی لیکن خرامِ نازِ دلبر لے گیا دل بدن میں اس کے ہے...
  18. طارق شاہ

    میر تقی مِیؔر ::::::سُنیو جب وہ کبھو سَوار ہُوا ::::::Mir Taqi Mir

    سُنیو جب وہ کبھو سَوار ہُوا تا بہ رُوح الامیں شکِار ہُوا اُس فریب بندہ کو نہ سمجھے آہ ! ہم نے جانا کہ ہم سے یار ہُوا نالہ ہم خاکساروں کا آخر! خاطرِعرش کا غُبار ہُوا مَر چَلے بے قرار ہو کر ہم اب تو تیرے تئیں قرار ہُوا وہ جو خنجر بَکف نظر آیا مِیؔر سو جان سے نِثار ہُوا مِیر تقی مِیؔر
  19. محمد تابش صدیقی

    میر غزل: چھَن گیا سینہ بھی، کلیجا بھی

    چھَن گیا سینہ بھی، کلیجا بھی یار کے تیر، جان لے جا بھی کیوں تری موت آئی ہے گی عزیز؟ سامنے سے مِرے، ارے جا بھی حال کہہ چُپ رہا جو* میں، بولا کس کا قصّہ تھا؟ ہاں کہے جا بھی ق میں کہا، میرؔ جاں بلب ہے شوخ تُو نے کوئی خبر کو بھیجا بھی؟ کہنے لاگا نہ واہی بک اتنا کیوں ہوا ہے سڑی، ابے جا بھی میر...
  20. طارق شاہ

    میر تقی مِیؔر ::::::پُہنچے ہے ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح :::::: Mir Taqi Mir

    پُہنچے ہے ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح ہوتے ہیں ہم ستم زدہ بیمار ہر طرح ترکیب و طرح، ناز و ادا، سب سے دل لگی ! اُس طرحدار کے ہیں گرفتار ہر طرح یوسفؑ کی اِس نظیر سے دل کو نہ جمع رکھ ! ایسی متاع، جاتی ہے بازار ہر طرح جس طرح مَیں دِکھائی دِیا ،اُس سے لگ پڑے ! ہم کشت و خُوں کے ہیں گے سزاوار ہر...
Top