مرتے ہیں تیرے نرگسِ بیمار دیکھ کر
جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر
افسوس وے کہ منتظر اک عمر تک رہے
پھر مر گئے ترے تئیں اک بار دیکھ کر
ناخواندہ خطِ شوق لگے چاک کرنے تو
قاصد تو کہیو ٹک کہ جفاکار دیکھ کر
کوئی جو دم رہا ہے سو آنکھوں میں ہے پھر آب
کر یو ٹک ایک وعدہِ دیدار دیکھ کر
دیکھیں جدھر...
بات کیا آدمی کی بن آئی
آسماں سے زمین نپوائی
چرخِ زن اس کے واسطے ہے مدام
ہو گیا دن تمام رات آئی
ماہ و خورشید و ابر و باد سبھی
اس کی خاطر ہوئے ہیں سودائی
کیسے کیسے کیے تردد جب
رنگ رنگ اس کو چیز پہنچائی
اس کو ترجیح سب کے اوپر دی
لطفِ حق نے کی عزت افزائی
حیرت آتی ہے اس کی باتیں دیکھ
خودسری،...
غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا
اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا
رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم
ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا
نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں
آخر انھیں دواؤں نے ہم کو ضرر کیا
کیا جانوں بزمِ عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ
میں صحبتِ شراب سے آگے سفر کیا
جس دم...
غزلِ
احسن اللہ خان بیاؔں
۔
کیا بے طرح ہُوئی تِری دُوری میں شام آج
مرنے کے پھر نہیں، نہ ہُوئے جو تمام آج
تُو بزم سے اُٹھا، کہ ہُوئی تلخ مے کشی !
میں سچ کہوُں، شراب کو سمجھا حَرام آج
غم جس کے پاس ہے، وہ فلاطُوں سے کم نہیں
جمشید ہے وہ جس کو میسّر ہے جام آج
اُس زُلف میں ہو گر، سَرِ مُو...
دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا
مجنوں مجنوں لوگ کہے ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا
دیدۂ تر کو سمجھ کر اپنا ہم نے کیا کیا حفاظت کی
آہ نہ جانا روتے روتے یہ چشمہ دریا ہو گا
کیا جانیں آشفتہ دلاں کچھ ان سے ہم کو بحث نہیں
وہ جانے گا حال ہمارا جس کا دل بیجا ہو گا
پاؤں حنائی اس کے لے آنکھوں پر...
طریقِ عشق میں ہے رہنما دل
پیمبر دل ہے قبلہ دل خدا دل
قیامت تھا مروت آشنا دل
موئے پر بھی مرا اس میں رہا دل
رکا اتنا خفا اتنا ہوا تھا
کہ آخر خون ہو ہوکر بہا دل
جسے مارا اسے پھر کر نہ دیکھا
ہمارا طرفہ ظالم سے لگا دل
نہ تھی سہل استقامت اس کی لیکن
خرامِ نازِ دلبر لے گیا دل
بدن میں اس کے ہے...
سُنیو جب وہ کبھو سَوار ہُوا
تا بہ رُوح الامیں شکِار ہُوا
اُس فریب بندہ کو نہ سمجھے آہ !
ہم نے جانا کہ ہم سے یار ہُوا
نالہ ہم خاکساروں کا آخر!
خاطرِعرش کا غُبار ہُوا
مَر چَلے بے قرار ہو کر ہم
اب تو تیرے تئیں قرار ہُوا
وہ جو خنجر بَکف نظر آیا
مِیؔر سو جان سے نِثار ہُوا
مِیر تقی مِیؔر
پُہنچے ہے ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح
ہوتے ہیں ہم ستم زدہ بیمار ہر طرح
ترکیب و طرح، ناز و ادا، سب سے دل لگی !
اُس طرحدار کے ہیں گرفتار ہر طرح
یوسفؑ کی اِس نظیر سے دل کو نہ جمع رکھ !
ایسی متاع، جاتی ہے بازار ہر طرح
جس طرح مَیں دِکھائی دِیا ،اُس سے لگ پڑے !
ہم کشت و خُوں کے ہیں گے سزاوار ہر...
ہم بھی پِھرتے ہیں یک حَشَم لے کر
دستۂ داغ و فوجِ غم لے کر
دست کش نالہ، پیش رُو گریہ
آہ چلتی ہے یاں، علَم لے کر
مرگ اِک ماندَگی کاوقفہ ہے!
یعنی آگے چلیں گے دَم لے کر
اُس کے اُوپر، کہ دِل سے تھا نزدِیک !
غم ِدُوری چلے ہیں ہم لے کر
بارہا صید گہ سے اُس کی گئے
داغِ یاس ،آہُوئے حَرَم لے کر...
غالب کہ یہ دِل خستہ شَبِ ہجر میں مر جائے
یہ رات نہیں وہ، جو کہانی میں گُزر جائے
ہے طُرفہ مُفتّن نِگہ اُس آئینہ رُو کی!
اِک پَل میں کرے سینکڑوں خُوں، اور مُکر جائے
نہ بُت کدہ ہے منزلِ مقصود، نہ کعبہ!
جو کوئی تلاشی ہو تِرا ، آہ ! کِدھر جائے
ہر صُبح تو خورشید تِرے مُنہ پہ چڑھے ہے
ایسا نہ ہو ،...
نہ پوچھ خوابِ زلیخا نے کیا خیال لیا
کہ کاروان کا کنعاں کے جی نکال لیا
رہِ طلب میں گرے ہوتے سر کے بل ہم بھی
شکستہ پائی نے اپنی ہمیں سنبھال لیا
رہوں ہوں برسوں سے ہم دوش پر کبھو اُن نے
گلے میں ہاتھ مرا پیار سے نہ ڈال لیا
بتاں کی میرؔ ستم وہ نگاہ ہے جس نے
خدا کے واسطے بھی خلق کا وبال لیا
(میر...
غزل
خواجہ محمد مِیر اثؔر دہلوی
لوگ کہتے ہیں یار آتا ہے
دِل تجھے اعتبار آتا ہے؟
دوست ہوتا جو وہ، تو کیا ہوتا
دُشمنی پر تو پیار آتا ہے
تیرے کوچے میں بیقرار تِرا
ہر گھڑی بار بار آتا ہے
زیرِ دِیوار تُو سُنے نہ سُنے
نام تیرا پُکار آتا ہے
حال اپنے پہ ،مجھ کو آپ اثؔر!
رحم بے اِختیار آتا ہے
خواجہ...
کیا میں نے رو کر فشارِ گریباں
رگِ ابر تھا تار تارِ گریباں
کہیں دستِ چالاک ناخن نہ لاگے
کہ سینہ ہے قرب و جوارِ گریباں
نشاں اشکِ خونیں کے اڑتے چلے ہیں
خزاں ہو چلی ہے بہارِ گریباں
جنوں تیری منت ہے مجھ پر کہ تو نے
نہ رکھا مرے سر پہ بارِ گریباں
زیارت کروں دل سے خستہ جگر کی
کہاں ہو گی یارب...
غزل
مِیر تقی مِیؔر
دیکھی تھی تیرے کان کے موتی کی اِک جھلک
جاتی نہیں ہے اشک کی رُخسار کے ڈھلک
یارب اِک اِشتیاق نِکلتا ہے چال سے
ملتے پھریں ہیں خاک میں کِس کے لیے فلک
طاقت ہو جس کے دل میں، وہ دو چار دن رہے!
ہم ناتوانِ عشق تمھارے، کہاں تلک
برسوں ہُوئے، کہ جان سے جاتی نہیں خلش
ٹک ہل گئی تھی...
آگے تو رسم دوستی کی تھی جہاں کے بیچ
اب کیسے لوگ آئے زمیں آسماں کے بیچ
میں بے دماغ عشق اٹھا سو چلا گیا
بلبل پکارتی ہی رہی گلستاں کے بیچ
تحریک چلنے کی ہے جو دیکھو نگاہ کر
ہیئت کو اپنی موجوں میں آب رواں کے بیچ
کیا میل ہو ہما کی پس از مرگ میری اور
ہے جائے گیر عشق کی تب اُستخواں کے بیچ
کیا...
دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی
صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی
واشُد کُچھ آگے آہ سی ہوتی تھی دِل کے تئیں
اقلیمِ عاشقی کی ہوا، اب بگڑ گئی
گرمی نے دل کی ہجر میں اس کے جلا دیا
شاید کہ احتیاط سے یہ تب بگڑ گئی
خط نے نکل کے نقش دلوں کے اٹھا دیئے
صورت بتوں کی اچھی جو تھی سب بگڑ گئی
باہم...
غزل
قائؔم چاندپُوری
شب جو دِل بیقرار تھا، کیا تھا
اُس کا پِھر اِنتظار تھا، کیا تھا
چشم، در پر تھی صبح تک شاید !
کُچھ کسی سے قرار تھا، کیا تھا
مُدّتِ عُمر، جس کا نام ہے آہ !
برق تھی یا شرار تھا ،کیا تھا
دیکھ کر مجھ کو، جو بزم سے تُو اُٹھا !
کُچھ تجھے مجھ سے عار تھا ، کیا تھا
پِھر گئی وہ...
اُردو
(اقبال اشہر)
اردو ہے مرا نام میں خسرو کی پہیلی
میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی
دکن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا
سودا کے قصیدوں نے میرا حُسن بڑھایا
ہے میر کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا
میں داغ کے آنگن میں کھلی بن کے چنبیلی
اردو ہے مرا نام میں خسرو کی پہیلی
غالب نے بلندی کا سفر مجھ کو...
الحمد للہ!
"شاعرِ مشرق" اور "دیوانِ غالب" اینڈرائڈ ایپ کے بعد اس سلسلے کی تیسری اور اہم کڑی میر تقی میر کے کلام پر مشتمل اینڈرائڈ ایپ "کلیاتِ میر" بھی تیار ہو گئی ہے.
اس ایپ میں میر کی غزلوں کے 6 دیوان اور رباعیات موجود ہیں.
اس کے علاوہ ایپ میں فونٹ سیلکشن ڈال دی ہے. اور باقی دونوں ایپس میں بھی...