فرار
اِس سے پہلے کہ خرابات کا دروازہ گرے
رقص تھم جائے ، اداؤں کے خزانے لُٹ جائیں
وقت کا درد ، نگاہوں کی تھکن ، ذہن کا بوجھ
نغمہ و ساغر و اِلہام کا رُتبہ پا لے
کونپلیں دُھوپ سے اک قطرۂ شبنم مانگیں
سنگساری کا سزاوار ہو بلّور کا جِسم
دِل کے اُجڑے ہوئے مندر میں وفا کی مِشعل
مصلحت کیشیِ طُوفان...