مصطفیٰ زیدی

  1. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی واقف نہیں اِس راز سے آشفتہ سراں بھی ۔ مصطفیٰ زیدی

    واقف نہیں اِس راز سے آشفتہ سراں بھی غم، تیشۂ فرہاد بھی، غم، سنگِ گراں بھی اُس شخص سے وابستہ خموشی بھی بیاں بھی جو نِشترِ فصّاد بھی ہے اَور رگِ جاں بھی کِس سے کہیں اُس حُسن کا افسانہ کہ جِس کو کہتے ہیں کہ ظالم ہے، تو رُکتی ہے زباں بھی ہاں یہ خمِ گردن ہے یا تابانیِ افشاں پہلو میں مِرے...
  2. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی منزل منزل ۔ مصطفیٰ زیدی

    منزل منزل آج کیوں میرے شب و روز ہیں محروم ِ گداز اے مری روح کے نغمے ، مرے دِل کی آواز اک نہ اک غم ہے نشاطِ سحروشام کے ساتھ اور اس غم کا مفہوم نہ مقصد نہ جَواز میں تو اقبال کی چوکھٹ سے بھی مایوس آیا میرے اَشکوں کا مداوا نہ بدخشاں نہ حِجاز چند لمحوں سے تمنّا کہ دوامی بن جائیں ایک مرکز پہ رہے...
  3. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی سایہ ۔ مصطفیٰ زیدی

    سایہ تمام شہر پہ آسیب سا مُسلط ہے دُھواں دُھواں ہیں دریچے ، ہوا نہیں آتی ہر ایک سمت سے چیخیں سُنائی دیتی ہیں صدائے ہم نَفَس و آشنا نہیں آتی گھنے درخت ، درو بام ، نغمہ و فانُوس تمام سحر و طلسمات و سایہ و کابُوس ہر ایک راہ پر آوازِ پائے نا معلُوم ہر ایک موڑ پہ اَرواحِ زِشت و بَد کا جلوس سفید...
  4. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی سچّائی ۔ مصطفیٰ زیدی

    سچّائی مشرق کے پنڈت، مغرب کے گرجا والے صبح ہوئی اور سچّائی کے پیچھے بھاگے سچّائی اک قحبہ تھی جو رات کو تھک کر سوئی ہوئی تھی، شور سنا تو خوف کے مارے تھر تھر کانپی، روزِ عدالت سے گھبرائی بھیس بدل کر پیچھے نکلی، آگے آگے مشرق کے پنڈت، مغرب کے گرجا والے (مصطفیٰ زیدی)
  5. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی تشکّک ۔ مصطفیٰ زیدی

    تشکّک مجھ کو دیے اکثر خداؤں نے بہ طورِ پیش کش دنیا و دیں میں، مصطفیٰ زیدی، ضعیف العتقاد و کم یقیں لیکن نہیں اے پڑھنے والو تم کو شاید اس کا اندازہ نہیں جن راستوں سے ہو کے آیا ہے یہ دورِ آخریں اس میں ملے صحرا، بگولے، دشت، دریا، آگ، نفرت، تیرگی اِلحان، گُلشن، رنگ، خوشبو، پیار، کونپل، انگبیں...
  6. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی طلسم ۔ مصطفیٰ زیدی

    طلسم بُجھ گیا ہے وُہ ستارہ جو مِری رُوح میں تھا کھو گئی ہے وُہ حرارت جو تِری یاد میں تھی وُہ نہیں عِشرتِ آسودگیِ منزِل میں جو کسک جادۂ گُم گشتہ کی اُفتاد میں تھی دُور اِک شمع لرزتی ہے پس ِ پردۂ شب اِک زمانہ تھا کہ یہ لَو مِری فریاد میں تھی ایک لاوے کی دھمک آتی تھی کُہساروں سے اِک قیامت کی...
  7. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا ۔ مصطفیٰ زیدی

    کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا قُلزم نے بڑ ھ کے چو م لیے پھول سے قدم دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا اِک موجِ خونِ خَلق تھی کس کی جبیں پہ تھی اِک طوقِ فردِ جرم تھا ،کس کے گلے میں تھا اِک رشتۂ وفا تھا سو کس ناشناس سے اِک درد حرزِ جاں تھا سو کس کے...
  8. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی پہلے ہی دن سے ہے مجھ پر یہ سخن کی صورت ۔ مصطفیٰ زیدی

    پہلے ہی دن سے ہے مجھ پر یہ سخن کی صورت شعر میں دل کا لہو آئے چمن کی صورت رات کو انجمنِ ذہن میں عریاں ہو کر جگ مگاتی ہے زمیں تیرے بدن کی صورت ناز کرتی ہے فضا شاہدۂ شب کی طرح کھیلتی چلتی ہے آواز پون کی صورت ہائے وہ عارضِ گُل نار شفق کی مانند ہائے وہ رقص پُر اسرار کرن کی صورت نظر آتی ہے ہر اک...
  9. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی آدمی ۔ مصطفیٰ زیدی

    آدمی مجھ کو محصور کیا ہے مری آگاہی نے میں نہ آفاق کا پابند، نہ دیواروں کا میں نہ شبنم کا پرستار، نہ انگاروں کا اہلِ ایقان کا حامی نہ گنہگاروں کا نہ خلاؤں کا طلب گار، نہ سیّاروں کا زندگی دھوپ کا میدان بنی بیٹھی ہے اپنا سایہ بھی گریزاں، ترا داماں بھی خفا رات کا روپ بھی بے زار، چراغاں بھی خفا...
  10. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی تعبیر ۔ مصطفیٰ زیدی

    تعبیر مجھے یقیں تھا کہ تم نہیں ہو تھکے ہوے کھڑکیوں کے چہرے جلی ہوئی آسماں کی رنگت سیاہ آفا‍ق تک بگولے لہو کے آتش فشاں کی ساعت وجود پر ایک بوجھ سا تھا نہ صبح ِوعدہ نہ شامِ فرقت اسی مہیب آتشیں گھڑی میں کسی کی دستک سنی تو دل نے کہا کہ صحرا کی چوٹ کھائے کوئی غریب الدیار ہو گا یہ سچ کہ دل کی ہر ایک...
  11. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی تہدیہ ۔ مصطفیٰ زیدی

    تہدیہ مُغاں سے لُطفِ ملاقات لے کہ آیا ہُوں نگاہِ پِیرِ خرابات لے کے آیا ہُوں زمیں کے کرب میں شامِل ہُوا ہُوں ، راہ روو فقیر ِ راہ کی سوغات لے کے آیا ہُوں نظر میں عصرِ جواں کی بغاوتوں کا غرور جگر میں سوزِ روایات لے کے آیا ہُوں یہ فکر ہے کہ یُونہی تیری روشنی چمکے گناہ گار ہُوں، ظلمات لے کے آیا...
  12. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی دوری ۔ مصطفیٰ زیدی

    دوری پہلے تیری مُحبّتیں چُن کر آرزو کے محل بناتے تھے بے نیازانہ زیست کرتے تھے صرف تجھ کو گلے لگاتے تھے زندگی کی متاعِ سوزاں کو تیری آواز لُوٹ جاتی تھی تیرے ہونٹوں کی لے ابھرتے ہی زخم کی تان ٹوٹ جاتی تھی تو کنول تھی، ایاغ تھی، کیا تھی روشنی کا سراغ تھی، کیا تھی میرا دل تھی، دماغ تھی، کیا...
  13. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی بُہتان ۔ مصطفیٰ زیدی

    بُہتان کیا یہی ہونٹ ہیں، جو مرے واسطے انگبیں تھے، مئے ناب تھے، آگ تھے کیا یہی جسم ہے، جس کے سب زاویے میرے آغوش میں راگ ہی راگ تھے ہاں بڑی چیز ہے راہ و رسمِ جہاں دوست، خاوند، بہنیں، قفس، پاسباں ننگ و نامُوس۔۔۔۔سینے کی چنگاریاں وہ ترا امتحاں۔۔۔۔۔یہ مرا امتحاں رکھ لیا اپنے رشتوں کا تُو نے بھرم...
  14. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی اے مری حسنِ قبا، اے مری جانِ ناموس ۔ مصطفیٰ زیدی

    اے مری حسنِ قبا، اے مری جانِ ناموس میرے اس چاکِ گریباں کی خبر بھی لیتی شہر کے نور کو سینے سے لگانے والی روح کے قریۂ ویراں کی خبر بھی لیتی جس کو اب تک نہیں یوں تجھ سے بچھڑنے کا یقیں کبھی اُس دیدۂ حیراں کی خبر بھی لیتی اپنے ہاتھوں سے بنائی تھی جو مرے دل میں اپنی اس شمعِ فروزاں کی خبر بھی لیتی...
  15. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی افتاد ۔ مصطفیٰ زیدی

    اُفتاد اے آتشِ تبسم و اے شبنمِ جمال خاموش آنسووں کی طرح جل رہے ہیں ہم تجھ کو خبر نہ ہو گی کہ دانش کے باوجود برسوں ترے خیال میں پاگل رہے ہیں ہم ہر بزمِ رنگ و رقص میں شرکت کے ساتھ ساتھ تنہا رہے ہیں اور سرِ مقتل رہے ہیں ہم دیکھا ہے تونے ہم کو بہاراں کے روپ میں مجروح قافلے کی طرح چل رہے ہیں ہم سب سے...
  16. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی بیٹھا ہوں سیہ بخت و مکّدر اسی گھر میں ۔ مصطفیٰ زیدی

    بیٹھا ہوں سیہ بخت و مکدّر اسی گھر میں اترا تھا مرا ماہِ منوّر اسی گھر میں اے سانس کی خوشبو، لب و عارض کے پسینے کھولا تھا مرے دوست نے بستر اسی گھر میں چٹکی تھیں اسی کنج میں اُس ہونٹ کی کلیاں مہکے تھے وہ اوقات میّسر اسی گھر میں افسانہ در افسانہ تھی مڑتی ہوئی سیڑھی اشعار در اشعار تھا ہر در اسی...
  17. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی شیریں زبانیوں کے دریچے اُجڑ گئے ۔ مصطفیٰ زیدی

    غزل شیریں زبانیوں کے دریچے اُجڑ گئے وہ لُطفِ حرف و لذّتِ حسنِ بیاں کہاں پیچھے گُزر گئی ہے سِتاروں کی روشنی یارو ، بسا رہے ہو نئی بستیاں کہاں اے منزلِ ابد کے چراغو ، جواب دو آگے اب اور ہو گا مرا کارواں کہاں ہر شکل پر فرشتہ رُخی کا گمان تھا اُس عالمِ جنوں کی نظر بندیاں کہاں بن جائے گی...
  18. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی وُہ عہد عہد ہی کیا ہے، جسے نبھاؤ بھی ۔ مصطفیٰ زیدی

    وُہ عہد عہد ہی کیا ہے، جسے نبھاؤ بھی ہمارے وعدۂ اُلفت کو بھُول جاؤ بھی بھلا، کہاں کے ہم ایسے گمان والے ہیں ہزار بار ہم آئیں، ہمیں بُلاؤ بھی بگڑ چلا ہے بُہت رسمِ خُود کشی کا چلن ڈرانے والو، کِسی روز کَر دکھاؤ بھی نہیں کہ عرضِ تمنا پہ مان ہی جاؤ ہمیں اِس عہدِ تمنّا میں آزماؤ بھی فغاں، کہ قصّۂ...
  19. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر، آہستہ، آہستہ ۔ مصطفیٰ زیدی

    چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر، آہستہ، آہستہ ہم اس کے پاس جاتے ہیں مگر، آہستہ، آہستہ ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ ملے گی اس کے چہرے کی سحر، آہستہ، آہستہ دریچوں کو تو دیکھو، چلمنوں کے راز تو سمجھو اٹھیں گے پردہ ہائے بام و در، آہستہ، آہستہ زمانے بھر کی کیفیّت سمٹ آئے گی ساغر میں پیو...
  20. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ہر اک نے کہا : کیُوں تجھے آرام نہ آیا ۔ مصطفیٰ زیدی

    ہر اک نے کہا : کیُوں تجھے آرام نہ آیا سُنتے رہے ہم ، لب پہ ترا نام نہ آیا دیوانے کو تکتی ہیں ترے شہر کی گلیاں نِکلا ، تو اِدھر لَوٹ کے بدنام نہ آیا مت پُوچھ کہ ہم ضبط کی کِس راہ سے گُزرے یہ دیکھ کہ تُجھ پر کوئی اِلزام نہ آیا کیا جانیے کیا بیت گئی دِن کے سفر میں وُہ مُنتظَرِ شام سرِ شام...
Top