ہے مئے گُل گوں کی تیرے یہ گلابی ہاتھ میں
یا دلِ پُر خوں ہے میرا، اے شرابی! ہاتھ میں
دیکھنے کو جلوہ تیرے حسن کا شب آسماں
ماہ سے رکھتا ہے روشن ماہتابی ہاتھ میں
جو نکل آیا وہ گُل گھر سے بوقتِ نیمروز
مہرِ تاباں لے کے دوڑا آفتابی ہاتھ میں
آستیں اس نے جو کہنی تک چڑھائی وقتِ صبح
آ رہی سارے بدن کی بے...
غزل
غلام ہمدانی مصحفیؔ
جی میں سمجھے تھے کہ دُکھ درد یہ سب دُور ہُوئے
ہم تو اِس کُوچے میں آ، اور بھی مجبُور ہُوئے
کل جو ہم اشک فشاں اُ س کی گلی سے گُزرے
سینکڑوں نقشِ قدم خانۂ زنبُور ہُوئے
پُھول بادام کے پیارے مُجھے لگتے ہیں، مگر
تیری آنکھوں کے تئیں دیکھ کے مخمُور ہُوئے
دِل پہ از بس کہ...
رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا
شعلہ سمجھا تھا اسے میں پہ بھبھوکا نکلا
مہر و مہ اس کی پھبن دیکھ کے حیران رہے
جب ورقِ یار کی تصویر دورو کا نکلا
یہ ادا دیکھ کے کتنوں کا ہوا کام تمام
نیمچہ کل جو ٹک اس عربدہ جو کا نکلا
مر گئی سرو پہ جب ہو کے تصدق قمری
اس سے اس دم بھی نہ طوق اپنے گُلو کا...
ایسے ڈرے ہیں کس کی نگاہِ غضب سے ہم
بد خواب ہو گئے ہیں جو دو چار شب سے ہم
کب کامیابِ بوسہ ہوئے اس کے لب سے ہم
شرمندہ ہی رہے دلِ مطلب طلب سے ہم
بوسہ نہ لے سکے کفِ پا کا ادب سے ہم
کاٹیں ہیں اس لیے کفِ افسوس شب سے ہم
سوداگرِ صفائے دلِ بے غبار ہیں
اجناسِ شیشہ لائے ہیں شہرِ حلب سے ہم
یہ...
کپڑے بدل کے آئے تھے، آگ مجھے لگا گئے
اپنے لباسِ سرخ کی، مجھ کو بھڑک دکھا گئے
بیٹھے ادا سے ایک پل، ناز سے اٹھے پھر سنبھل
پہلو چرا گئے نکل، جی ہی مرا جلا گئے
رکھتے ہی در سے پا بروں، لے گئے صبر اور سکوں
فتنۂ خفتہ تھا جنوں، پھر وہ اسے جگا گئے
مجھ کو تو کام کچھ نہ تھا، گو کہ وہ تھے پری لقا...
چھریاں چلیں شب دل و جگر پر
لعنت ہے اس آہِ بے اثر پر
بالوں نے ترے بلا دکھا دی
جب کھل کے وہ آ رہی کمر پر
نامے کو مرے چھپا رکھے گا
تھا یہ تو گماں نہ نامہ بر پر
پھرتے ہیں جھروکوں کے تلے شاہ
اس کو ہیں امید یک نظر پر
کیا جاگا ہے یہ بھی ہجر کی شب
زردی سی ہے کیوں رخِ قمر پر
پھر غیرتِ عشق...
غزلِ
مُصحفیؔ
گِل کا پُتلا قضا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں، پر امرِ خُدا کے ہاتھ میں ہُوں
وہ ہی واقف ہے میری کِل کِل سے
سچ عجب آشنا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں تو گھٹری پَوَن کی مِثلِ حباب
لیکن، آب و ہَوا کے ہاتھ میں ہُوں
کوزہ ہُوں آبِ صاف کا، لیکن!
ڈر ہے اِتنا، فنا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں مَیں رنگِ حنا...
نہ گیا کوئی عدم کو دل شاداں لے کر
یاں سے کیا کیا نہ گئے حسرت و ارماں لے کر
کیا خطا مجھ سے ہوئ رات کہ اس کافر کا
میں نے خود چھوڑ دیا ہاتھ میں داماں لے کر
باغ وہ دست جنوں تھا کبھی جس میں سے
لالہ و گل گئے ثابت نہ گریباں لے کر
طرفہ سوجھی یہ جنوں کو تیرے دیوانے کی
راہ میں پھینک دیے خار مغیلاں لے...
غزل
رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا
شعلہ سمجھا تھا اسے میں پہ بھبھوکا نکلا
مہر و مہ اس کی پھبن دیکھ کے حیران رہے
جب ورق یار کی تصویر دورو کا نکلا
یہ ادا دیکھ کے کتنوں کا ہوا کام تمام
نیمچہ کل جو ٹک اس عربدہ جو کا نکلا
مر گئی سرو پہ جب ہو کے تصدق قمری
اس سے اس دم بھی نہ طوق اپنے گلو کا...
ایک اور کاوش پیشِ خدمت ہے.
تمام محفلین سے درخواست ہے کہ تنقیدی نظر سے دیکھ کر اپنی قیمتی رائے سے نوازیں۔
مصحفی کی روح سے معذرت کے ساتھ
"رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا"
منہ کا کھلنا تھا کہ بدبو کا بھبھوکا نکلا
نام "Angel" تھا تو تصویر بھی حوروں جیسی
پر اکاونٹ وہ مرے یار "گلو" کا نکلا
بیٹے...
غزل
(مصحفی غلام ہمدانی امروہوی)
یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی
کسو سے ہمیں یاں لڑا کر رہیں گی
اگر یہ نگاہیں ہیں کم بخت اپنی
تو کچھ ہم کو تہمت لگا کر رہیں گی
یہ سفاکیاں ہیں تو جوں مرغ بسمل
ہمیں خاک و خوں میں ملا کر رہیں گی
کیا ہم نے معلوم نظروں سے تیری
کہ نظریں تری ہم کو کھا کر رہیں گی...
غزل
(مصحفی غلام ہمدانی)
دل چیز کیا ہے، چاہئے تو جان لیجئے
پر بات کو بھی میری ذرا مان لیجئے
مریے تڑپ تڑپ کے دلا کیا ضرور ہے
سر پر کسی کی تیغ کا احسان لیجئے
آتا ہے جی میں چادر ابرِ بہار کو
ایسی ہوا میں سر پہ ذرا تان لیجئے
میں بھی تو دوست دار تمہارا ہوں میری جاں
میرے بھی ہاتھ سے تو کبھو پان...
غزل
(مصحفی غلام ہمدانی)
ہو چکا ناز، منہ دکھائیے بس
غصہ موقوف کیجے، آئیے بس
فائدہ کیا ہے یوں کھنچے رہنا
میری طاقت نہ آزمائیے بس
"دوست ہوں میں ترا" نہ کہیے یہ حرف
مجھ سے جھوٹی قسم نہ کھائیے بس
آپ کو خوب میں نے دیکھ لیا
تم ہو مطلب کے اپنے جائیے بس
مصحفی عشق کا مزہ پایا
دل کسی سے نہ اب لگائیے بس
غزل
(مصحفی غلام ہمدانی)
اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب
یک شب کہیں تم بھی آؤ صاحب
روٹھا ہوں جو تم سے میں تو مجھ کو
آ کر کے تمہیں مناؤ صاحب
بیٹھے رہو میرے سامنے تم
از بہرِ خدا نہ جاؤ صاحب
کچھ خوب نہیں یہ کج ادائی
ہر لحظہ نہ بھوں چڑھاؤ صاحب
رکھتے نہیں پردہ غیر سے تم
جھوٹی قسمیں نہ کھاؤ صاحب
در گزرے...
غزل
شیخ غلام ہمدانی مصحفؔی
شب گھر سے جو سیٹی کی وہ آواز پہ نِکلا
نِکلا تو وہ، لیکن عجب انداز پہ نِکلا
مانی نے قلمداں میں رکھا خامۂ مُو کو
خط جب سے تِرے لعلِ فسُوں ساز پہ نِکلا
دِل مجلسِ خُوباں میں جو گُم رات ہُوا تھا
صد شُکر اُسی محرمِ ہمراز پہ نِکلا
سو حُسن کی تصوِیریں لِکھیں کلکِ قضا...
ان دنوں کچھ تعلیمی مصروفیات کے باعث کلاسیک کی گرد جھاڑنے کا اتفاق ہوا ہے۔ مصحفیؔ کی ایک شہرۂِ آفاق غزل نظر سے گزری تو ذہن سے چپک کر ہی رہ گئی۔ اسے اتارنے کے لیے ہم نے بھی اس زمین میں کچھ لوٹنیاں کھانی مناسب سمجھیں۔ ملاحظہ فرمائیے:
حسن تھا یا کمال تھا، کیا تھا؟
عشق تھا یا زوال تھا، کیا تھا؟
کیا...
دل نہ دیجے، اس کو اپنا، جس سے یاری کیجیے
آپ اتنی تو بھلا، خاطر ہماری کیجیے
تم کو کیا چاکِ گریباں سے کسی کے کام ہے
جائیے لڑکوں میں واں، دامن سواری کیجیے
جی میں آتا ہے، کہ اک دن مار مریے آپ کو
کب تلک گلیوں میں یوں، فریاد و زاری کیجیے
مارے تلوارں کے، اتّو کر دیا سینہ مرا
چاہیے تو، اور بھی...
یارانِ رفتہ آہ بہت دور جا بسے
دل ہم سے رک گیا تھا انہوں کا جدا بسے
کوچے میں تیرے ہاتھ ہزاروں بلند ہیں
ایسے کہاں سے آ کے یہ اہلِ دعا بسے
کرتا ہے کوئی زیبِ تن اپنا وہ رشکِ گُل
پھولوں میں جب تلک کہ نہ اس کی قبا بسے
بلبل کہے ہے جاؤں ہوں، کیا کام ہے مرا
میں کون، اس چمن میں نسیم و صبا بسے
جنگل...
ملنا ہمارے ساتھ صنم عار کچھ نہ تھا
تم چاہتے تو تم سے یہ دشوار کچھ نہ تھا
سن کر کے واقعے کو مرے اُس نے یوں کہا
کیا سچ ہے یہ؟ وہ اتنا تو بیمار کچھ نہ تھا
میری کشش سے آپ عبث مجھ سے رک رہے
روٹھا تھا یوں ہی جی سے میں بیزار کچھ نہ تھا
ہاں شب صدائے پاسی تو آئی تھی کچھ ولے
دیکھا جو اٹھ کے میں، پسِ...
غزل
(مصحفی)
خاموش ہیں ارسطو و فلاطوں مرے آگے
دعویٰ نہیں کرتا کوئی موزوں مرے آگے
دانش پہ گھمنڈ اپنی جو کرتا ہے بہ شدّت
واللہ کہ وہ شخص ہے مجنوں مرے آگے
لاتا نہیں خاطر میں سُخن بیہودہ گو کا
اعجاز میسحا بھی ہے افسوں مرے آگے
میں گوز سمجھتا ہوں سدا اُس کی صدا کو
گو بول اُٹھے ادھی کا چوں چوں...