غزل
شب وہ ان آنکھوں کو شغل اشکباری دے گئے
لے گئے خواب ان کا اور اختر شماری دے گئے
چلتے چلتے اس ادا سے وعدہ آنے کا کیا
دے کے ہاتھ اس دل پہ اور اک زخم کاری دے گئے
خواب و خور صبر و سکوں یکبار سب جاتا رہا
بے قرار اپنے کو کیسی بے قراری دے گئے
ٴ
یہ خبر تو نے سنی ہو گی کہ اس کوچے...
غزل
اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں
پلکیں ہیں جس کی چھریاں آنکھیں کٹاریاں ہیں
ٹک صفحہ ء زمیں کے خاکے پہ غور کر تو
صانع نے اس پہ کیا کیا شکلیں اتاریاں ہیں
دل کی طپش کا اپنے عالم ہی ٹک جدا ہے
سیماب و برق میں کب یہ بیقراریاں ہیں
ان محملوں پہ آوے مجنوں کو کیوں نہ حسرت
جن محملوں کے اندر...
غزل
دھویا گیا تمام ہمارا غبارِ دل
گریے نے دل سے خوب نکالا بخارِ دل
اتنا نہیں کوئی کہ خبر اُس کی آ کے لے
کب سے بجھا پڑا ہے چراغِ مزارِ دل
صبر و قرار کب کا ہمارا وہ لے گیا
سمجھے تھے جس کو مایۂ صبر و قرارِ دل
کہتے ہیں داغِ عشق کسے ہم کو کیا خبر
یک قطرہ خونِ گرم تو ہے ہم کنارِ دل
مجبور ہوں میں...
غزل
دل تری بے قراریاں کیا تھیں
رات وہ آہ و زاریاں کیا تھیں
تیرے پہلو میں اُس کی مژگاں سے
برچھیاں یا کٹاریاں کیا تھیں
سُرمہ دینے میں اُس کی آنکھوں کو
کیا کہوں آب داریاں کیا تھیں
اپنی قسمت میں آہ کس سے کہوں
ذلّتیں اور خواریاں کیا تھیں
مصحفی گر نہ تھا تُو عاشقِ زار
پھر تو یہ جاں نثاریاں کیا...
غزل
از بس کہ چشمِ تر نے بہاریں نکالیاں
مژگاں ہیں اشکِ سرخ سے پھولوں کی ڈالیاں
دل میں خیالِ زلف سے طوفاں نہ کیوں کہ ہو
اکثر گھٹائیں اٹھتی ہیں ایدھر سے کالیاں
کیا اعتماد یاں کے وکلا عزل و نصب کو
ایدھر تغیّراں تو اُدھر ہیں بحالیاں
اس کی کمر تو کاہے کو پتلی ہے اس قدر
یہ ہم سے شاعروں کی ہیں نازک...
غزل
ذرا ہم سے بھی ملتے جائیے گا
کبھو تو اس طرف بھی آئیے گا
ہمارا دل ہے قابو میں تمہارے
بھلا جی کیوں نہ اب ترسائیے گا
جو ہم رونے پہ آویں گے تو اے ابر
بجائے آب، خوں برسائیے گا
بہار آئی تو اب کے ناصحوں کو
گریباں پرزے کر دکھلائیے گا
ق
کہا اے مصحفی میں اُس سے اک دن
کہ بوسہ آج تو دلوائیے گا...
غزل-یہ دلی کا نقشہ اتارا زمیں پر -شیخ غلام ہمدانی مصحفی
یہ دلی کا نقشہ اتارا زمیں پر
کہ لا عرش کو یاں اتارا زمیں پر
قسم ہے سلیماں کی پیشِ زماں میں
یہیں پریوں کا تھا گذارا زمیں پر
میں وہ سنگِ راہ ہوں کہ جو ٹھوکروں میں
پھرے ہر طرف مارا مارا زمیں پر
فلک نے اپنے تئیں دور کھینچا
یہ...
غزل
بچا گر ناز سے تواس کو پھر انداز سے مارا
کوئی انداز سے مارا تو کوئی ناز سے مارا
کسی کو گرمی تقدیر سے اپنی لگا رکھا
کسی کو مونھ چھپا کر نرمئ آواز سے مارا
ہمارا مرغِ دل چھوڑا نہ آخر اس شکاری نے
گہے شاہین پھینکے اس پہ گہے باز سے مارا
غزل پڑھتے ہی میری یہ مغنی کی ہوئی حالت
کہ اس...
کلامِ مصحفی
(غلام ہمدانی مصحفی امروہوی)
مصحفی تخلص، غلام ہمدانی نام، ساکن امروہے کا ۔ اپنی قوم کا اشراف ہے، سچ تو یہ ہے کہ گفتگو اس کی بہت صاف صاف ہے۔ بندش نظم میں اس کے ایک صفائی اور شیرینی ہے، اور معنی بندش میں اس کے بلندی اور رنگینی۔ ایک مدت شاہ عالم بادشاہ غازی کے عہد سلطنت میں مقیم شاہ...
غزل
(غلام ہمدانی مصحفی)
جان سے تا وہ مجھے مار نہیں جانے کا
جان جاوے گی ولے یار نہیں جانے کا
بعد مُردن جو رہیں گے یونہیں وَادِیدہء شوق
المِ حسرت دیدار نہیں جانے کا
مرضِ عشق کی شاید ہو پسِ مرگ، شفا
زندگی میں تو یہ آزار نہیں جانے کا
رحم کر ضعف پر اُس کے کہ چمن تک صیاد
نالہء مرغِ...
خورشید کو سایہ میں زلفوں کے چھپا رکھا
چتون کی دکھا خوبی سرمہ کو لگا رکھا
سویا تھا لپٹ کر میں اس ساتھ ولے اس نے
پہلو سے میرے پہلو تا صبح جدا رکھا
معمار نے قدرت کے طاقِ خمِ ابرو کو
موقعے سے بنایا تو ٹک لے کے جھکا رکھا
کس منہ سے اجل کو اب منہ اپنا دکھائیں گے
ہم میں تری الفت نے کہہ تو ہی کہ کیا...
معشوق ہوں یا عاشقِ معشوق نما ہوں
معلوم نہیں مجکو ۔ کہ میں کون ہوں- کیا ہوں
ہوں شاہدِ تننزیہہ کے رخسارہ کا پردہ
یا خود ہی میں شاہد ہوں ۔ کہ پردہ میں چھپا ہوں
ہستی کو مری ہستیِ عالم نہ سمجھنا
ہوں ہست - مگر ہستیِ عالم سے جدا ہوں
انداز ہیں سب عاشق و معشوق کے مجھ میں
سوزِ جگر و دل ہوں ۔...
مجھ سے منہہ پھیر لیا غیر کے دکھلانے کو
اُس نے یہ چھیڑ نکالی مجھے ترسانے کو
کیا جلے خاک کہ آنے نہیں دیتا کوئی
شعلہ شمع کے نزدیک بھی پروانے کو
پھاڑ کر اپنا گریباں ابھی مجنوں کی طرح
جی میں آتا ہے نکل جائیے ویرانے کو
عشقِ مجنوں سے یہ افسانہ نہیں کم لیکن
کون سنتا ہے مرے درد کے افسانے کو...