بہت دیر سے آئے هو
اب کیا کرنے آئے هو
ضرورت تھی تیری جب جب
تب تب مجھے ستایا ہے
جب کر لیے میں نے خشک آنسو
کیوں پھر سے رلانے آئے ہو
نه لگانا اب کوئی بہانا تم
نہ لگانا کوئی جھوٹی امید
جانتا ہون نہیں پروا کوئی
صرف دل بہلانے آئے ہو
تم ہو ہنسی کے شوقین
میں اشکوں کا خوگر ہوں
رهیں گے بے چین...
تہمت کا کہیں بغض و رقابت کا درندہ
ہرموڑ پہ بیٹھا ہے جہالت کا درندہ
بچے کئی معصوم نگلتا ہے یہ ہر روز
جو شہر میں پھرتا ہے محبت کا درندہ
ڈرتا ہوں کہیں کھنیچ نہ لے روح بدن سے
تنہائی کے جنگل میں یہ وحشت کا درندہ
جاں بخشے یہی رن میں، یہی جاں لے حرم میں
فطرت میں تو انسان ہے، خصلت کا درندہ
آنکھوں سے...
بیلا کے پانی چیختے چنگھاڑتے پتھروں سے ٹکریں مارتے جھاگ اڑاتے ان دیکھی منزلوں کی جانب رواں دواں تھے. کسی بڑے پتھر پہ بیٹھے اس نے پانی کو وہاں تک جاتے دیکھا جہاں تک وہ دکھائی دیتے تھے. پانی کا رنگ شدید نیلا تھا ،جانے پانی کا اصل رنگ کیا ہے؟ سوچ کی لہریں بھی چیخنے چنگھاڑنے لگتی ہیں. کوئی نہیں...
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے.
کچھ خوشیاں لازوال ہوتی ہیں. انمول اور قیمتی جن کا کوئی مول نہیں ہوتا. خوشی کا دل سے بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے. اسکی کونپلیں سے پھوٹ نکلتی ہیں اور پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں.
ایسی ہی خوشی اس کی آمد بھی تھی عجیب اور بے تحاشا. بے یقینی جیسا یقین...
ابتدائی جماعت کے بچوں کو سمتوں کے نام (مشرق، مغرب، شمال، جنوب) سکھانے کے لیے ایک چھوٹی سی پیاری نظم درکارہے۔
اگر پہلے کسی نے کہی ہو تو نشاندہی فرمائیں۔ یا کوئی اُستاد شاعر بچوں پر نوازش فرمائیں۔ بڑا کرم ہوگا۔