ہے بھیگ چلی رات، پر افشاں ہے قمر بھی
ہے بارشِ کیف اور ہوا خواب اثر بھی
اب نیند سے جھکنے لگیں تاروں کی نگاہیں
نزدیک چلا آتا ہے ہنگامِ سحر بھی!
میں اور تم اس خواب سے بیزار ہیں دونوں
اس رات سرِ شام سے بیدار ہیں دونوں
ہاں آج مجھے دور کا در پیش سفر ہے
رخصت کے تصور سے حزیں قلب و جگر ہے
آنکھیں غمِ فرقت...