غزل
رقم کریں گے تِرا نام اِنتسابوں میں
کہ اِنتخابِ سُخن ہے یہ اِنتخابوں میں
مِری بَھری ہُوئی آنکھوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ
کہ آسمان مُقیّد ہیں، اِن حبابوں میں
ہر آن دِل سے اُلجھتے ہیں دو جہان کے غم
گِھرا ہے ایک کبُوتر کئی عقابوں میں
ذرا سُنو تو سہی کان دھر کے نالۂ دِل
یہ داستاں نہ ملے گی...
غزل
یہ سِتَم اور ، کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو
اِس سے تو آگ ہی لگ جائے سمن زاروں کو
ہے عبث فکرِ تلافی تجھے، اے جانِ وفا !
دُھن ہے اب اور ہی کُچھ ،تیرے طلبگاروں کو
تنِ تنہا ہی گُذاری ہیں اندھیری راتیں
ہم نے گبھراکے، پُکارا نہ کبھی تاروں کو
ناگہاں پُھوٹ پڑےروشنیوں کے جھرنے
ایک جھونکا ہی اُڑا...
غزل
کیوں نہ سرسبز ہو ہماری غزل
خُونِ دِل سے لِکھی ہے ساری غزل
جتنی پیاری ہے تیری یاد مجھے!
لب پہ آتی ہے ویسی پیاری غزل
سالہا سال رنج کھینچے ہیں
مَیں نے شیشے میں جب اُتاری غزل
جب بھی غُربت میں دِل اُداس ہُوا
مَیں تِرے ساتھ ہُوں، پُکاری غزل
دَمِ تخلیق پچھلی راتوں کو
یُوں بھی ہوتی ہے مجھ پہ...
غزل
قِصّے ہیں خموشی میں نِہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غَمِ دِل کے بَیاں اور طرح کے
تھی اور ہی کُچھ بات، کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپئے جاں اور طرح کے
اے را ہروِ راہِ وفا ! دیکھ کے چلنا
اِس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے
کھٹکا ہے جُدائی کا ، نہ ملنے کی تمنّا
دِل کو ہیں مِرے وہم و گُماں...
چھوٹی رات، سفر لمبا تھا
میں اِک بستی میں اُترا تھا
سُرماندی کے گھاٹ پہ اُس دن
جاڑے کا پہلا میلا تھا
بارہ سکھیوں کا اِک جُھرمٹ
سیج پہ چکّر کاٹ رہا تھا
نئی نکور کنواری کلیاں
کورا بدن کورا چولا تھا
دیکھ کے جوبن کی پُھلواری
چاند گگن پر شرماتا تھا
پیٹ کی ہری بھری کیاری میں
سُرخ مُکھی کا...
پی،فو،جن
۔۔۔
اُس کے ریشمی پِھرَن کی سَر سَر اب خاموش ہے
مر مر کی پگڈنڈی دُھول سے اٹی ہُوئی ہے
اُس کا خالی کمرہ کِتنا ٹھنڈا اور سُونا ہے
دروازوں پر، گِرے ہُوئے پتّوں کے ڈھیر لگے ہیں
اُس سندری کے دھیان میں بیٹھے
مَیں اپنے دُکھیارے من کی کیسے دِھیر بندھاؤں
(نظم : وی تی)
(نظم: وی تی)
ترجمہ ...
غزل
سُناتا ہے کوئی بُھولی کہانی
مہکتے مِیٹھے دریاؤں کا پانی
یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سُنا ہے میں نے لوگوںکی زبانی
یہاں اِک شہر تھا ،شہرِ نگاراں !
نہ چھوڑی وقت نے اُس کی نشانی
مَیں وہ دِل ہُوں دبِستانِ الَم کا
جسے رَوئے گی صدیوں شادمانی
تصوّر نے اُسے دیکھا ہے اکثر
خِرَد کہتی ہے جس کو...
غزل
پھر لہُو بول رہا ہے دِل میں
دَم بہ دَم کوئی صدا ہے دِل میں
تاب لائیں گے نہ سُننے والے
آج وہ نغمہ چِھڑا ہے دِل میں
ہاتھ ملتے ہی رہیں گے گُل چِیں
آج وہ پُھول کِھلا ہے دِل میں
دشت بھی دیکھے ، چمن بھی دیکھا
کُچھ عجب آب و ہَوا ہے دِل میں
رنج بھی دیکھے، خوشی بھی دیکھی
آج کُچھ درد نیا ہے دِل...
غزل
بنے بنائے ہُوئے راستوں پہ جانکلے
یہ ہم سفر مِرے ،کتنے گُریز پا نکلے
چلے تھے اور کسی راستے کی دُھن میں، مگر
ہم اِتّفاق سے، تیری گلی میں آ نکلے
غمِ فراق میںکُچھ دیر رو ہی لینے دو
بُخار کُچھ تو ، دلِ بے قرار کا نکلے
نصیحتیں ہَمَیںکرتے ہیں ترکِ اُلفت کی
یہ خیر خواہ ہمارے کِدھر سے آنکلے...
ناصؔرکاظمی
حُسن کہتا ہے اِک نظر دیکھو
دیکھو اور آنکھ کھول کر دیکھو
سُن کے طاؤسِ رنگ کی جھنکار
ابر اُٹھّاہے جُھوم کر دیکھو
پُھول کو پُھول کا نِشاں جانو
چاند کو چاند سے اُدھر دیکھو
جلوۂ رنگ بھی ہے اِک آواز
شاخ سے پُھول توڑ کر دیکھو
جی جلاتی ہے اوس غُربت میں
پاؤں جلتے ہیں گھاس پر دیکھو...
نشاطِ خواب
ناصؔر کاظمی
ہر کُوچہ اِک طلِسم تھا، ہر شکل موہنی
قصّہ ہے اُس کے شہر کا یارو شُنیدنی
تھا اِک عجیب شہر درختوں کے اوٹ میں
اب تک ہے یاد اُس کی جگا جوت روشنی
سچ مُچ کا اِک مکان، پرستاں کہیں جسے
رہتی تھی اُس میں ایک پری زاد پدمنی
اُونچی فصِیلیں، فصِیلوں پہ بُرجیاں
دِیواریں رنگِ...
غزلِ
ناصر کاظمی
وہ اِس ادا سے جو آئے تو یُوں بَھلا نہ لگے
ہزار بار مِلو پھر بھی آشنا نہ لگے
کبھی وہ خاص عِنایت کہ سَو گُماں گُزریں
کبھی وہ طرزِ تغافل، کہ محرمانہ لگے
وہ سیدھی سادی ادائیں کہ بِجلیاں برسیں
وہ دلبرانہ مرُوّت کہ عاشقانہ لگے
دکھاؤں داغِ محبّت جو ناگوار نہ ہو
سُناؤں قصّۂ...
غزلِ
ناصر کاظمی
وا ہُوا پھر درِ میخانۂ گُل
پھرصبا لائی ہے پیمانۂ گُل
زمزمہ ریز ہُوئے اہلِ چمن
پھر چراغاں ہُوا کاشانۂ گُل
رقص کرتی ہُوئی شبنم کی پَری
لے کے پھر آئی ہے نذرانۂ گُل
پُھول برسائے یہ کہہ کر اُس نے
میرا دِیوانہ ہے دِیوانۂ گُل
پھرکسی گُل کا اِشارہ پا کر
چاند نِکلا سرِ مےخانۂ...
غزلِ
ناصر کاظمی
کہیں اُجڑی اُجڑی سی منزِلیں، کہیں ٹُوٹے پُھوٹے سے بام و در
یہ وہی دِیار ہے دوستو! جہاں لوگ پِھرتے تھے رات بھر
میں بھٹکتا پِھرتا ہُوں دیر سے ، یونہی شہر شہر، نگر نگر
کہاں کھو گیا مِرا قافلہ، کہاں رہ گئے مِرے ہمسفر
جنھیں زندگی کا شعُور تھا انھیں بے زری نے بِچھا دِیا
جو گراں...
غزلِ
ناصر کاظمی
خواب میں، رات ہم نے کیا دیکھا
آنکھ کُھلتے ہی چاند سا دیکھا
کیاریاں دُھول سے اٹی پائیں
آشیانہ جَلا ہُوا دیکھا
فاختہ سر نگوں بَبولوُں میں
پُھول کو پُھول سے جُدا دیکھا
اُس نے منزِل پہ لا کے چھوڑ دِیا
عُمر بھر جس کا راستا دیکھا
ہم نے موتی سمجھ کے چُوم لِیا
سنگریزہ جہاں پڑا...
غزلِ
ناصر کاظمی
خموشی اُنگلیاں چٹکا رہی ہے
تِری آواز اب تک آ رہی ہے
دلِ وحشی لیے جاتا ہے، لیکن
ہَوا زنجیر سی پہنا رہی ہے
تِرے شہرِ طرب کی رونقوں میں
طبیعت اور بھی گھبرا رہی ہے
کرم اے صرصرِ آلامِ دَوراں
دِلوں کی آگ بُجھتی جا رہی ہے
کڑے کوسوں کے سنّاٹے میں لیکن
تِری آواز اب تک آ رہی ہے...
انْبالہ ایک شہر تھا، سُنتے ہیں اب بھی ہے
میں ہُوں اُسی لُٹے ہُوئے قریے کی روشنی
اے ساکنانِ خطۂ لاہور دیکھنا
لایا ہُوں اُس خرابے سے میں لعلِ معدنی
ناصر کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج جناب ناصر کاظمی صاحب کی 42 ویں برسی ہے۔
اِس موقع کی نسبت سے ،میں اُن کے دیوان سے اپنی ایک پسندیدہ غزل
آپ سب...
غزل
شہر سنسان ہے کدھر جائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں
رات کتنی گزُر گئی لیکن
اتنی ہمّت نہیں ، کہ گھر جائیں
یوں تِرے دھیان سے لرزتا ہُوں
جیسے پتّے ہوا سے ڈر جائیں
اُن اجالوں کی دُھن میں پھرتا ہُوں
چَھب دِکھاتے ہی جو گزُر جائیں
رین اندھیری ہے اور کنارہ دُور
چاند نکلے تو، پار اُتر جائیں...
غزل
شعاعِ حُسن تِرے حُسن کو چھپاتی تھی
وہ روشنی تھی کہ صُورت نظر نہ آتی تھی
کسے مِلیں، کہاں جائیں کہ رات کالی ہے
وہ شکل ہی نہ رہی ، جو دِیے جلاتی تھی
وہ دن توتھے ہی حقیقت میں عمرکا حاصل
خوشا وہ دن ، کہ ہمیں روز موت آتی تھی
ذرا سی بات سہی ، تیرا یاد آجانا !
ذرا سی بات بہت دیر تک رُلاتی...
غزلِ
صدائے رفتگاں پھر دِل سے گزُری
نگاہِ شوق، کِس منزِل سے گزُری
کبھی روئے ، کبھی تُجھ کو پُکارا
شبِ فُرقت بڑی مُشکل سے گزُری
ہوائے صُبْح نے چونْکا دِیا، یُوں !
تِری آواز جیسے دِل سے گزُری
مِرا دل خُوگرِ طُوفاں ہے، ورنہ !
یہ کشتی بارہا ساحِل سے گزُری
ناصرکاظمی