تو اسیر بزم ہے ہم سخن! تجھے ذوقِ نالۂ نےَ نہیں
ترا دل گداز ہو کس طرح، یہ ترے مزاج کی لَے نہیں
ترا ہر کمال ہے ظاہری، ترا ہر خیال ہے سرسری
کوئی دل کی بات کروں تو کیا، ترے دل میں آگ تو ہے نہیں
جسے سن کے روح مہَک اٹھے، جسے پی کے درد چہَک اٹھے
ترے ساز میں وہ صدا نہیں، ترے میکدے میں وہ مَے نہیں...
غزل
ناصرکاظمی
پھر نئی فصْل کےعنواں چمکے
ابْر گرجا، گُلِ باراں چمکے
آنکھ جھپکوں تو شرارے برسیں
سانس کھینچوں تو رگِ جاں چمکے
کیا بِگڑ جائے گا اے صُبْحِ جمال
آج اگر شامِ غرِیباں چمکے
اے فلک بھیج کوئی برقِ خیال
کچھ تو شامِ شبِ ہِجراں چمکے
پھر کوئی دل کو دُکھائے ناصر
کاش یہ گھر کسی...
غزل
ناصر کاظمی
کیا لگے آنکھ ، کہ پِھر دل میں سمایا کوئی
رات بھر پِھرتا ہے اِس شہر میں سایا کوئی
فِکر یہ تھی کہ شب ہجر کٹے گی کیوں کر
لُطف یہ ہے کہ ہمَیں یاد نہ آیا کوئی
شوق یہ تھا کہ محبت میں جلیں گے چُپ چاپ
رنج یہ ہے کہ، تماشہ نہ دِکھایا کوئی
شہْر میں ہمدمِ دیرِینہ بُہت تھے ناصر
وقت...
غزل
ناصر کاظمی
کہاں گئے وہ سُخنوَر جو میرِ محفِل تھے
ہمارا کیا ہے، بھلا ہم کہاں کے کامِل تھے
بَھلا ہُوا کہ، ہَمَیں یوں بھی کوئی کام نہ تھا
جو ہاتھ ٹُوٹ گئے، ٹُوٹنے کے قابِل تھے
حرام ہے جو صُراحی کو مُنْہ لگایا ہو !
یہ اور بات کہ ہم بھی شرِیک محفِل تھے
گُزر گئے ہیں جو خوشبوئے رائیگاں...
یاد آتا ہے روز و شب کوئی
ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی
لبِ جُو چھاؤں میں درختوں کی
وہ ملاقات تھی عجب کوئی
جب تجھے پہلی بار دیکھا تھا
وہ بھی تھا موسمِ طرب کوئی
کچھ خبر لے کے تیری محفل سے
دور بیٹھا ہے جاں بلب کوئی
نہ غمِ زندگی نہ دردِ فراق
دل میں یونہی سی ہے طلب کوئی
یاد آتی ہیں...
کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیا کہتے ہیں
جبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیں
میری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں
غم نہیں گر لبِ اظہار پر پابندی ہے
خامشی کو بھی تو اِک طرزِ نوا کہتے ہیں
کُشتگانِ ستم و جور کو بھی دیکھ تو لیں
اہلِ دانش جو جفاؤں کو وفا...
سفرِ منزلِ شب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں
دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں
وہ ستارہ تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
اک صورت تھی عجب یاد نہیں
ایسا الجھا ہوں غمِ دنیا میں
ایک بھی خوابِ طرب یاد نہیں
بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار...
تنہائی
تنہائی کا دکھ گہرا تھا
میں دریا دریا رویا تھا
اک لہر ہی نہ سنبھلی ورنہ
میں طوفانوں سے کھیلا تھا
تنہائی کا تنہا سایہ
دیر سے میرے ساتھ لگا تھا
چھوڑ گئے جب سارے ساتھی
تنہائی نے ساتھ دیا تھا
سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی
تنہائی کا پھول کھِلا تھا
تنہائی میں یادِ خدا تھی
تنہائی میں خوفِ خدا تھا...
غزل
[color=#80BFFF][کوئی سمجھائے یہ کیا رنگ ہے میخانے کا
آنکھ ساقی کی اُٹھے نام ہو پیمانے کا
گرمئی شمع کا افسانہ سنانے والو
رقص دیکھا نہیں تم نے ابھی پروانے کا
چشمِ ساقی مجھے ہر گام پہ یاد آتی ہے
راستہ بھول نہ جاؤں کہیں میخانے کا
اب تو ہر شام گزرتی ہے اُسی کوچے میں
یہ نتیجہ ہوا...
کون اس راہ سے گزرت ہے
دل يونہي انتظار کرتا ہے
ديکھ کر بھي نہ ديکھنے والے
دل تجھے ديکھ ديکھ ڈرتا ہے
شہر گل ميں کٹي ہے ساري رات
ديکھيے دن کہاں گزرتا ہے
دھيان کي سڑھيوں...
اے دردِ ہجر یار غزل کہہ رہا ہوں میں
بے موسمِ بہار غزل کہہ رہا ہوں مہیں
میرے بیانِ غم کا تسلسل نہ ٹوٹ جائے
گیسئوں ذرا سنوار غزل کہہ رہا ہوں میں
راز و نیازِ عشق میں کیا دخل ہے تیرا
ہٹ فکرِ روزگار غزل کہہ رہا ہوں میں
ساقی بیانِ شوق میں رنگینیاں بھی ہو
لا جامِ خوشگوار غزل کہہ رہا ہوں میں...
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر تیرا وعدہ شب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیماِن وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر...
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرس گل اداس کرکے مجھے
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
میں تیرے درد کی تغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے
تیرے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے...