ناصر کاظمی

  1. فرخ منظور

    ناصر کاظمی گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ ۔ ناصر کاظمی

    گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ دلی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ سارا سارا دن گلیوں میں پھرتے ہیں بے کار راتوں اٹھ اٹھ کر روتے ہیں اس نگری کے لوگ سہمے سہمے سے بیٹھے ہیں راگی اور فن کار بھور بھئے اب ان گلیوں میں کون سنائے جوگ جب تک ہم مصروف رہے یہ دنیا تھی سنسان دن ڈھلتے ہی دھیان...
  2. نیرنگ خیال

    اعتبارِ نغمہ ( برگِ نے) از ناصر کاظمی

    اعتبارِ نغمہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب شاعری فنکار کے لیے باعثِ ننگ نہیں تھی گیت گانے والا گاؤں گاؤں ، نگری نگری گھومتا پھرتا تھا اور بات بات پر عشق و محبت، دلیری، شجاعت، سیر و تفریح اور ان جانے دیسوں کے نغمے گاتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کوئی بہت ہی سیدھا سادا اور رس بھر ساز ہوتا تھا جس کی دھن پہ اس...
  3. سیما علی

    ناصر کاظمی گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

    گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سناکر ستارۂ شام بن کے آیا برنگ خواب سحر گیا وہ خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم وہ بوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں مرے تو دل میں اتر گیا...
  4. سیما علی

    ناصر کاظمی کی غزل گوئی

    ناصر کاظمی کی غزل گوئی ناصر کاظمی کے زندگی کے ان صبر آزما واقعات نے ان کی تخلیقی شخصیت کو گہرے طور پر متاثر کیا اور انھوں نے ایسے اشعار لکھے ، جو اس دور کی سماجی دہشت خیزیوں اور انتشار کا پتہ دیتے ہیں : انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ یہاں جو حادثے کل ہوگئے ہیں رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا اُگ...
  5. طارق شاہ

    ناصر کاظمی شبنم آلُود پلک یاد آئی

    غزل شبنم آلُود پلک یاد آئی گُلِ عارض کی جھلک یاد آئی پھر سُلگنے لگے یادوں کے کھنڈر پھر کوئی تاکِ خنک یاد آئی کبھی زُلفوں کی گھٹا نے گھیرا کبھی آنکھوں کی چمک یاد آئی پھر کسی دھیان نے ڈیرے ڈالے کوئی آوارہ مہک یاد آئی پھر کوئی نغمہ گُلو گیر ہُوا کوئی بے نام کسک یاد آئی ذرّے پھر مائلِ...
  6. محمود احمد غزنوی

    ناصر کاظمی گا رہا تھا کوئی درختوں میں ۔۔۔

    گا رہا تھا کوئی درختوں میں رات نیند آگئی درختوں میں چاند نکلا افق کے غاروں سے آگ سی لگ گئی درختوں میں مینہہ برسا تو برگ ریزوں نے چھیڑ دی بانسری درختوں میں یہ ہوا تھی کہ دھیان کا جھونکا کس نے آواز دی درختوں میں ہم ادھر گھر میں ہو گئے بے چین دور آندھی چلی درختوں میں لیے جاتے ہے موسموں کی...
  7. عاطف ملک

    طبیبانہ ہزل: اپنی "ای آر" بڑھ نہ جائے کہیں

    (ناصرؔ کاظمی سے معذرت) اپنی "ای آر"* بڑھ نہ جائے کہیں آج "ایس کے"* ہی لڑ نہ جائے کہیں مجھ کو کرنی پڑی ہے سی پی آر* کوئی پٹھا اکڑ نہ جائے کہیں ڈیوٹی پر لیٹ جا رہا ہوں آج ناشتہ مجھ کو پڑ نہ جائے کہیں ایچ او* لائی ہے میرے واسطے کیک میرا ایس آر* سڑ نہ جائے کہیں ڈر ہی رہتا ہے روز راؤنڈ پر اے پی*...
  8. فرخ منظور

    ناصر کاظمی گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے

    گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہلِ دنیا نے بقدرِ تشنہ لبی پرسشِ وفا نہ ہوئی چھلک کے رہ گئے تیری نظر کے پیمانے خیال آ...
  9. میم الف

    یاد نہیں!

    آداب! میں پرانا منیب ہی ہوں لیکن چونکہ username تبدیل نہیں کر سکتے، اِس لیے مجبوراً نیا اکاؤنٹ بنانا پڑا ہے۔ آیندہ ”میم الف“ کے نام سے ہی محفل میں شرکت کروں گا۔ معذرت بھی چاہتا ہوں کہ بار بار نام تبدیل کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ بس! اب یہ حتمی username ہے، جسے آیندہ تبدیل نہیں کروں گا۔ — خیر،...
  10. م

    غور سے سن

    سازِ ہستی کی صدا غور سے سن کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن دن کے ہنگاموں کو بےکار نہ جان شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سن چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان ڈوبتے دن کی ندا غور سے سن کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِ شام روح کے تار ہلا غور سے سن یاس کی چھاؤں میں سونے والے! جاگ اور شورِ درا غور سے سن ہر نفس...
  11. م

    ناصر کاظمی تو ہے یا تیرا سایا ہے

    تو ہے یا تیرا سایا ہے بھیس جدائی نے بدلا ہے دل کی حویلی پر مدت سے خاموشی کا قفل پڑا ہے چیخ رہے ہیں خالی کمرے شام سے کتنی تیز ہوا ہے دروازے سر پھوڑ رہے ہیں کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے تنہائی کو کیسے چھوڑوں برسوں میں اک یار ملا ہے رات اندھیری ناؤ نہ ساتھی رستے میں دریا پڑتا ہے ہچکی تھمتی ہی...
  12. فرحان محمد خان

    ناصر کاظمی غزل : ﺗﺮﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﻟَﻮ ﺩﮮ ﺍﭨﮭﯽ ﮨﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ - ناصر کاظمی

    غزل ترے خیال سے لَو دے اٹھی ہے تنہائی شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی اُنھیں بھی دیکھ جِنھیں راستے میں نیند آئی پُکار اے جرسِ کاروانِ صبحِ طرب بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی ٹھہر گئے ہیں سرِ راہ خاک اُڑانے کو مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی رہِ...
  13. طارق شاہ

    سلام از-ناصرؔ کاظمی:::: لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے:::: Nasir Kazmi

    سلام ۔ لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے یہ گُل چنے ہیں شہیدوں کی داستاں کے لیے کھڑے ہیں شاہ کمر بستہ اِمتحاں کے لیے پِھر ایسی رات کب آئے گی آسماں کے لیے دِیا بُجھا کے یہ کہتے تھے ساتھیوں سے حُسینؑ جو چاہو، ڈھونڈ لو رستا کوئی اماں کے کیے کہا یہ سُن کے رفیقوں نے یک زباں ہو کر ! یہ جاں تو وقف...
  14. لاریب مرزا

    ناصر کاظمی فکر تعمیرِ آشیاں بھی ہے

    فکر تعمیرِ آشیاں بھی ہے خوفِ بے مہرئ خزاں بھی ہے خاک بھی اڑ رہی ہے رستوں میں آمدِ صبح کا سماں بھی ہے رنگ بھی اڑ رہا ہے پھولوں کا غنچہ غنچہ شرر فشاں بھی ہے اوس بھی ہے کہیں کہیں لرزاں بزمِ انجم دھواں دھواں بھی ہے کچھ تو موسم بھی ہے خیال انگیز کچھ طبیعت مری رواں بھی ہے کچھ ترا حسن بھی ہے ہوش...
  15. خان بھائی

    گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

    Short Biography of Nasir Kazmi a Poet of Modern Urdu Ghazal ناصر کاظمی 8 دسمبر، 1925 ہندوستانی پنجاب کے شہر امبالہ میں ایک ہندوستانی رائل آرمی کے ایک صوبیدار میجر محمد سلطان کے گھر پیدا ہوئے والد کی نوکر ی کی وجہ سے ناصر کو کئی شہروں میں رہنے کا موقع ملتا رہا۔ مگر ناصر کاظمی نے اپنا میٹرک...
  16. طارق شاہ

    ناصر کاظمی :::::: رقم کریں گے تِرا نام اِنتسابوں میں :::::: Nasir Kazmi

    غزل رقم کریں گے تِرا نام اِنتسابوں میں کہ اِنتخابِ سُخن ہے یہ اِنتخابوں میں مِری بَھری ہُوئی آنکھوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ کہ آسمان مُقیّد ہیں، اِن حبابوں میں ہر آن دِل سے اُلجھتے ہیں دو جہان کے غم گِھرا ہے ایک کبُوتر کئی عقابوں میں ذرا سُنو تو سہی کان دھر کے نالۂ دِل یہ داستاں نہ ملے گی...
  17. فہد اشرف

    ناصر کاظمی نعت (تضمین بر اشعار غالب)

    نعت (تضمین بر اشعار غالب) یہ کون طائر سدرہ سے ہم کلام آیا جہانِ خاک کو پھر عرش کا سلام آیا جبیں بھی سجدہ طلب ہے یہ کیا مقام آیا ”زباں پہ بار خدایا! یہ کس کا نام آیا کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے“ خطِ جبیں ترا امّ الکتاب کی تفسیر کہاں سے لاوں ترا مثل اور تیری نظیر دکھاوں پیکرِ الفاظ میں...
  18. طارق شاہ

    ناصر کاظمی :::::: یہ ستم اور کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو :::::: Nasir Kazmi

    غزل یہ سِتَم اور ، کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو اِس سے تو آگ ہی لگ جائے سمن زاروں کو ہے عبث فکرِ تلافی تجھے، اے جانِ وفا ! دُھن ہے اب اور ہی کُچھ ،تیرے طلبگاروں کو تنِ تنہا ہی گُذاری ہیں اندھیری راتیں ہم نے گبھراکے، پُکارا نہ کبھی تاروں کو ناگہاں پُھوٹ پڑےروشنیوں کے جھرنے ایک جھونکا ہی اُڑا...
  19. فرحان محمد خان

    ناصر کاظمی اومیرے مصروف خدا

    اومیرے مصروف خدا اپنی دنیا دیکھ ذرا اتنی خلقت کے ہوتے شہروں میں ہے سناٹا جھونپڑی والوں کی تقدیر بجھا بجھا سا ایک دیا خاک اڑاتے ہیں دن رات میلوں پھیل گئے صحرا زاغ و زغن کی چیخوں سے سونا جنگل گونج اٹھا سورج سر پہ آ پہنچا گرمی ہے یا روز جزا پیاسی دھرتی جلتی ہے سوکھ گئے بہتے دریا...
  20. طارق شاہ

    ناصر کاظمی :::::: کیوں نہ سرسبز ہو ہماری غزل ::::: Nasir Kazmi

    غزل کیوں نہ سرسبز ہو ہماری غزل خُونِ دِل سے لِکھی ہے ساری غزل جتنی پیاری ہے تیری یاد مجھے! لب پہ آتی ہے ویسی پیاری غزل سالہا سال رنج کھینچے ہیں مَیں نے شیشے میں جب اُتاری غزل جب بھی غُربت میں دِل اُداس ہُوا مَیں تِرے ساتھ ہُوں، پُکاری غزل دَمِ تخلیق پچھلی راتوں کو یُوں بھی ہوتی ہے مجھ پہ...
Top