غزل
تیرا قصور نہیں، میرا تھا
میں تُجھ کو اپنا سمجھا تھا
دیکھ کے تیرے بدلے تیور
میں تو اُسی دن رو بیٹھا تھا
اب میں سمجھا ، اب یاد آیا
تُو اُس دن کیوں چُپ چُپ سا تھا
تجھ کو جانا ہی تھا لیکن
مِلے بغیر ہی کیا جانا تھا
اب تجھے کیا کیا یاد دِلاؤں
اب تو وہ سب کچھ ہی دھوکا تھا
وہی...
غزل
تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا
پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا
یاد آئی وہ پہلی بارش
جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا
ہرے گلاس میں چاند کے ٹکڑے
لال صراحی میں سونا تھا
چاند کے دل میں جلتا سورج
پھول کے سینے میں کانٹا تھا
کاغذ کے دل میں چنگاری
خس کی زباں پر انگارہ تھا
دل کی صورت کا اک پتا...
ناصر کاظمی کی ویب سے ایک غزل ملی جو بہت ہی خوبصورت ہے اور شاید محفل میں پہلے پوسٹ نہیں ہوئی۔
غزل
اوّلیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو
یاد آئی تیری انگشتِ حنائی مجھ کو
سرِ ایوان طرب نغمہ سرا تھا کوئی
رات بھر اُس نے تیری یاد دلائی مجھ کو
دیکھتے دیکھتے تاروں کا سفر ختم ہُوا
سو گیا چاند مگر...
رنگ برسات نے بھرے کچھ تو
زخم دل کے ہوٕئے ہرے کچھ تو
فرصتِ بے خودی غنیمت ہے
گردشیں ہو گئیں پرے کچھ تو
کتنے شوریدہ سر تھے پروانے
شام ہوتے ہی جل مرے کچھ تو
ایسا مشکل نہیں ترا ملنا
دل مگر جستجو کرے کچھ تو
آؤ ناصر کوئی غزل چھیڑیں
جی بہل جائے گا ارے کچھ تو
کرتا اسے بےقرار کچھ دیر
ہوتا اگر اختیار کچھ دیر
کیا روئیں فریبِ آسماں کو
اپنا نہیں اعتبار کچھ دیر
آنکھوں میں کٹی پہاڑ سی رات
سو جا دلِ بےقرار کچھ دیر
اے شہرِ طرب کو جانے والو
کرنا مرا انتظار کچھ دیر
بے کیفئ روز و شب مسلسل
سر مستئ انتظار کچھ دیر
تکلیفِ غمِ فراق دائم
تقریبِ وصالِ یار...
میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
خالی رستہ بول رہا ہے
آج تو یوں خاموش ہے دنیا
جیسے کچھ ہونے والا ہے
کیسی اندھیری رات ہے دیکھو
اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے
آج تو شہر کی روش روش پر
پتوں کا میلہ سا لگا ہے
آؤ گھاس پر سبھا جمائیں!
میخانہ تو بند پڑا ہے
پھول تو سارے جھڑ گئے لیکن
تیری یاد کا زخم...
یہ غزل مجھے بہت عجیب اور پراسرار لگی ہے۔ پڑھ کر دل پر عجیب سا اثر ہوا ہے۔
سو گئی شہر کی ہر ایک گلی
اب تو آجا کہ رات بھیگ چلی
کوئی جھونکا چلا تو دل دھڑکا
دل دھڑکتے ہی تیری یاد آئی
کون ہے تو کہاں سے آیا ہے
کہیں دیکھا ہے تجھ کو پہلے بھی
تو بتا کیا تجھے ثواب ملا
خیر میں نے تو رات...
کیا دن مجھے عشق نے دکھائے
اِک بار جو آئے پھر نہ آئے
اُس پیکرِ ناز کا فسانہ
دل ہوش میں آئے تو سُنائے
وہ روحِ خیال و جانِ مضموں
دل اس کو کہاں سے ڈھونڈھ لائے
آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر
عارض کہ شراب تھتھرائے
مہکی ہوئی سانس نرم گفتار
ہر ایک روش پہ گل کلکھلائے
راہوں پہ...
عشق میں جیت ہوئی یا مات
آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات
یوں آیا وہ جانِ بہار
جیسے جگ میں پھیلے بات
رنگ کھُلے صحرا کی دھوپ
زلف گھنے جنگل کی رات
کچھ نہ کہا اور کچھ نہ سُنا
دل میں رہ گئی دل کی بات
یار کی نگری کوسوں دور
کیسے کٹے گی بھاری رات
بستی والوں سے چھپ کر
رو لیتے ہیں...
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال
بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے
ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہلِ دنیا نے
بقدرِ تشنہ لبی پرسشِ وفا نہ ہوئی
چھلک کے رہ گئے تیری نظر کے پیمانے...
ترے ملنے کو بے کل ہو گئے ہیں
مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں
بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم
وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں
یہاں تک بڑھ گئے آلامِ ہستی
کہ دل کے حوصلے شل ہو گئے ہیں
کہاں تک لائے ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں
انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے...
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
اے دل کسے نصیب یہ توفیقِ اضطراب
ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی
تیرے کرم سے اے عالمِ حُسنِ آفریں
دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی
جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ
آنکھوں میں ڈھل گئی تیری صورت کبھی کبھی
تیرے قریب...
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپا ہے خانہ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آرہی ہے ابھی
شہر کی بے چراغ...
سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سُن
دن کے ہنگاموں کو بیکار نہ جان
شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سُن
چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان
ڈوبتے دن کی ندا غور سے سُن
کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِشام
روح کے تار ہِلا غور سے سُن
یاس کی چھاؤں میں سونے والے
جاگ اور شورِ درا غور سے سُن
ہر نفس...
تم آ گئے ہو تو کیوں انتظار شام کریں
کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں
خلوص ومہر ووفا لوگ کر چکے ھیں بہت
مرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں
یہ خاص وعام کی بیکار گفتگو کب تک
قبول کیجیے جو فیصلہ عوام کریں
ہر آدمی نہیں شائستۂ رموز سخن
وہ کم سخن ہو مخاطب تو ہم کلام کریں
جدا ھوئے ھیں بہت...
سرِ مقتل بھی صدا دی ہم نے
دل کی آواز سنا دی ہم نے
پہلے اک روزنِ در توڑا تھا
اب کے بنیاد ہلا دی ہم نے
پھر سرِ صبح وہ قصہ چھیٹرا
دن کی قندیل بجھا دی ہم نے
آتشِ غم کے شرارے چن کر
آگ زنداں میں لگا دی ہم نے
رہ گئے دستِ صبا کملا کر
پھول کو آگ پلا دی ہم نے
آتشِ گل ہو کہ ہو شعلۂِ ساز...
http://www.youtube.com/watch?v=Qf1lVsICO6Q
پتھر بنا دیا مجھے رونے نہیں دیا
دامن بھی تیرے غم نے بھگونے نہیں دیا
تنہائیاں تمہارا پتہ پوچھتی رہیں
شب بھر تمہاری یاد نے سونے نہیں دیا
آنکھوں میں آ کے بیٹھ گئی اشکوں کی لہر
پلکوں پہ کوئی خواب پرونے نہیں دیا
دل کو تمہارے نام کے آنسو عزیز...
یاد آتا ہے روز و شب کوئی
ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی
لبِ جُو چھاؤں میں درختوں کی
وہ ملاقات تھی عجب کوئی
جب تجھے پہلی بار دیکھا تھا
وہ بھی تھا موسمِ طرب کوئی
کچھ خبر لے کے تیری محفل سے
دور بیٹھا ہے جاں بلب کوئی
نہ غمِ زندگی نہ دردِ فراق
دل میں یونہی سی ہے طلب کوئی
یاد آتی ہیں...
ہنستے گاتے روتے پھول
جی میں ہیں کیسے کیسے پھول
کیسے اندھے ہیں وہ ہاتھ
جن ہاتھوں نے توڑے پھول
ایک ہری کونپل کے لئے
میں نے چھوڑے کتنے پھول
کچی عمریں،کچے رنگ
ہنس مکھ بھولے بھالے پھول
مہک اٹھی پھر دل کی کتاب
یاد آئے یہ کب کے پھول
کانٹے چھوڑ گئی آندھی
لے گئی اچھے اچھے پھول...