سلام مجرئی جوہرِ قرطاس و قلم کھلتے ہیں
طبل بجتا ہے قلمرو میں عَلم کھلتے ہیں
آمدِ ماہِ محرم سے گھروں میں اپنے
درِ فردوس کی صورت درِ غم کھلتے ہیں
یہ بھی اسرارِ دعا برسرِ مجلس ہی کھلے
لب کھلیں یا نہ کھلیں بابِ کرم کھلتے ہیں
غنچہ و گُل بھی کوئی چشمِ عزا ہیں گویا
بند ہوتے ہیں جو بے آب تو نم کھلتے...