نویدظفرکیانی

  1. نویدظفرکیانی

    غزل : رنگِ شب ہجراں بھی بہ اندازِ دگر ہے از :- نویدظفرکیانی

    رنگِ شب ہجراں بھی بہ اندازِ دگر ہے اِس درد کا عنواں بھی بہ اندازِ دگر ہے کام آتے نہیں ترکِ تعلق کے ارادے یہ منزلِ آساں بھی بہ اندازِ دگر ہے ہم شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح ہیں امیدِ بہاراں بھی بہ اندازِ دگر ہے سب سوختہ ساماں ہیں مکیں ہوں کہ مکاں ہوں شہروں کا چراغاں بھی بہ اندازِ دگر ہے...
  2. نویدظفرکیانی

    غزل - دہوپ سے بچنے کی خاطر سائباں رکھا گیا از: نویدظفرکیانی

    دہوپ سے بچنے کی خاطر سائباں رکھا گیا سہل انگاروں نے جانا آسماں رکھا گیا ہائے کیوں آغاز کر بیٹھا سفر اِس ذعم میں رہگذاروں کو بقدرِ رہرواں رکھا گیا کاوشِ تسخیرِ منزل ناخدا کے سر رہی میرا قصہ بہرِ زیبِ داستاں رکھا گیا جراتِ پرواز دیتا ہی نہیں بارِ بدن ورنہ میری پہنچ میں ہر آسماں...
  3. نویدظفرکیانی

    غزل : لبِ دریا کوئی ملا ہی نہیں از: نویدظفرکیانی

    لبِ دریا کوئی ملا ہی نہیں مجھ سا تشنہ کوئی ملا ہی نہیں عمرِ رفتہ کی ہے خبر کس کو جانے والا کوئی ملا ہی نہیں دل کی روداد آنسوؤں سے لکھی اور خامہ کوئی ملا ہی نہیں فکرِ منزل سے جان چھوٹ گئی ہم کو رستہ کوئی ملا ہی نہیں قفل شکنی نہ ہو سکی دل کی تیرے جیسا کوئی ملا ہی نہیں ======...
  4. نویدظفرکیانی

    غزل: ہمیشہ مضطرب موجوں کو رکھنا ہے سمندر نے ۔ از: نویدظفرکیانی

    ہمیشہ مضطرب موجوں کو رکھنا ہے سمندر نے سفر کا استعارہ بن کے رہنا ہے سمندر نے مری خوشیوں کے مول اُس نے خریدا ہے نشہ اپنا مرے ہر چاند کو خود میں ڈبویا ہے سمندر نے عجب طوفانِ غراں ہے بپا ہرفردِ خانہ میں اِسی دالان سے جیسے گزرنا ہے سمندر نے یہ مشتِ خاک نے پوچھا ہے اکثر موج میں آ کر کوئی طوفان...
Top